ازقلم : رقیہ غزل (حسبِ موقع )
یکم مئی کا دن ”لیبر ڈے“ کے طورپر مناتے ہوئے ہمیں 138 سال ہو گئے ‘ نہ انداز اہل زر بدلا نہ احساسِ زیاں جاگا ‘مزدوروں کی فلاح و بہتری کے لیے آوازیں توبہت بلند ہوئیں مگر عملاً کوئی سہولت ،رعایت ،ریلیف نہیں ملا بلکہ اس کساد بازاری میں امیر،امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب ترہو تا چلا گیااوراب اچھے مستقبل کی امید بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ رویے نے مزدور کی شخصی آزادی کو ہی صلب نہیں کیا بلکہ اس کی آزادی اظہار پر بھی قدغنیں لگا رکھی ہیں کہ ہر قسم کے قانون کی زد میں یہی طبقہ آتا ہے یقیناسرمایہ دار ہونا کوئی برائی نہیںمگر سرمایہ دارانہ رویہ ، احساسات اور خدائی پیغام سے متصادم ہے۔ یکم مئی کے تاریخی پس منظر سے بالعموم وہ ہی انسان واقفیت رکھتا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ علم و تدریس سے وابسطہ ہے ورنہ عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ حکومتی چھٹیوں میں سے ایک چھٹی کا دن ہے ۔جس میں سرمایہ دار طبقہ اپنے بچوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکلتا ہے اور سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مزدور یونین جلسوں ،تقریبوں اور ریلیوں کا اہتمام کرتی ہے ،مزدور لیڈر تقاریر کرتے ہیں اور مزدوروں کی انجمنیں بھی رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں،وزرا ور سربراہانِ مملکت کے رنگا رنگ بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں ۔جس میں وہی نام نہاد دعوی اور دلکش وعدے کئے جاتے ہیں جو سالہا سال سے کئے جا رہے ہیں مگر تاریخی اوراق پلٹ کر دیکھ لیں،روز اول سے لیکر آج تک میری قوم کے جفاکشوں کی وہی حالت ہے جو کل تھی کہ دووقت کی روٹی ملناتو دور کی بات زندگی کا تحفظ بھی نہیں ہے ۔
مجموعی تاثر یہی ہے کہ 1886 میں شکاگو کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے جو نعرہ حق بلند کیا اور اس کے لیے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا تھا اس جرات و بہادری کیوجہ سے سرکاری سطح پر اس طبقے کی پزیرائی اور حقوق کے لیے جن کی حیثیت ہر معاشرے میں کیڑے مکوڑوں یا تنکوں کے ڈھیر سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی ہے ایک دن مختص کر دیا گیاہے،درحقیقت صورتحال انتہائی مایوس کن ہے کہ اس چھٹی سے مزدوروں کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کیونکہ مزدور طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے آگاہ نہیں ہے ، وہ نہیں جانتے کہ وہ طبقہ جس کے بغیر حکمرانی کا تصور ممکن نہیں اس کے لیے حکمرانوں کے پاس کیوں کچھ نہیں ہے کیوں ان کو پیدا ہوتے ہی ان کے والدین یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ ”اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح ۔۔میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح “کہ تمھاری زندگی نسل در نسل غلامی اور غلام بچوں کی پیدائش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آگاہی تعلیم دیتی ہے مگر ہمارے نصاب میں بھی وہ علم شامل ہے جس کا اطلاق ہماری روز مرہ زندگی میں کہیں پرنہیں ہوتا ،بائیں وجہ اس معاشرے میں صرف وہ لوگ اپنے حقوق سے واقف ہوتے ہیں جو قانون کی تعلیم حاصل کرتے ہیں یا جنھیں کوئی ایسی مشکل درپیش آجاتی ہے کہ انھیں عدالتوں میں بھٹکنا پڑتا ہے ۔اب ایسے میں سب سے نچلا طبقہ جس کو عام تعلیم تک رسائی ہی نہیں وہ اپنے حقوق سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے۔۔ شاید ہوجاتا ۔۔اگر ان کی بحالی اور خوشحالی کے لیے کی گئی سب کاروائیاں کاغذوں تک محدود نہ ہوتیں کیونکہ1947میں جب پاکستان آزاد ہوا تھا تو پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر بن چکا تھا اور 1972میں با قاعدہ طور پر اس دن کو منانے کا اعلان ہوا تب سے آج تک پاکستان میں یہ دن طولاً کراہاً منایا جا تا ہے ۔جس میں محنت کشوں کو درپیش مسائل ،انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ اور مزدور دشمن قوانین کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے مگر اس مد میں کئے گئے تمام منصوبے ،قراردادیں اور آوازیں وہیں پر دب جاتی ہیں اور یہ دن حسرت و یاس کا دلسوزاحساس لئے ڈوب جاتا ہے اور مزدور تقربات کے لیے ریفریشمینٹ اور انتظامات کرنے کے بعد کرسیاں سمیٹتے اور برتن دھوتے نظر آتے ہیںاور بچا کھانا لیکر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور جب بستر پر لیٹتے ہیں تو ان کے ہاتھوں اور پیروں کے چھالے کراہ اٹھتے ہیں :
آج بھی ہے اپنا دن ،آج بھی بھی ہیں ہم مجبور ۔۔افسروں کی چھٹی ہے، کام پر ہیں سب مزدور
ایک محدود اندازے کے مطابق پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں مزدور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں ان کے بہت سے مسائل میں طویل اوقات کار ،کم اجرت ،صحت و صفائی اور انشورنس کی سہولیات کی عدم دستیابی سر فہرست ہیں ۔جس کی وجہ سے نہ صرف یہ مزدور خود بلکہ ان کے بچے بھی کم عمری میں ہی محنت مشقت میں لگ جاتے ہیں اور تمام عمر زیست کی کھٹنائیوں سے لڑتے اور خودی میں پیچ و تاب کھاتے گزار دیتے ہیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دل میں طبقاتی کشمکش زہر کی مانند سرایت کر جاتی ہے اور وہ ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر اپنا اور ملک و قوم کا نقصان کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں شرح دولت بڑھ رہی ہے وہاں سماجی تنزلی اور طبقاتی کشمکش میں بھی روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ تلخ حقائق سے سبھی آگاہ ہیں پھر بھی دنیا میں مزدوروں کا استحصال جاری ہے کوئی ان کے بارے نہیں سوچتا۔ حکمران اپنی کرسی کے چکر میں رہتے ہیں نتیجتاً تمام منصوبوںاور سہولیات سے بھی وہی طبقہ مستفید ہوتا ہے جس کے پاس پہلے سے فراوانی ہے اور تنگ و تاریک گلیوں میں نہ باد نسیم چلتی ہے نہ ستارے جگمگاتے ہیں۔آج اہل زر پریشان ہیں کہ مہنگائی اور افراط زر نے بے دست و پا کر دیا ہے، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم سے دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا ؟ سرکاری سطح پر بھی سب کوششیں نیم دلانہ لگتی ہیں اس پر سرمایہ داروں اور طاقتوروں کا ظلم جو آدمیت کو شرمندہ کر دیتا ہے الگ لہو داستانیں لکھتا ہے ،جیسا کہ چھوٹے مزدوربچے کو اس کی ماں کے سامنے بھٹے میں پھینک دینا ، دو بھائیوں کو زندہ جلا دینا اور ایسے ہی دو میاں بیوی کو زندہ جلانااور غریب کی عزت سے کھیلنا ، کتوں کے آگے پھینک دینا اور فریاد کی سنوائی نہ ہونا تو عام روش بن چکی ہے بلا شبہ یہ انسانیت سوز واقعات سرمایہ دارانہ طبقہ پر سوالیہ نشان ہیں ۔اس لیے مزوروں کے عالمی دن پر تقریبات کو منعقدکرنے یا دانشوروں ،ادیبوں کے اقوال اور اشعار کو پڑھنے سے بہتر ہے ان میں چھپے اس درد کو محسوس کیا جائے اور آنے والی نسلوں کو اس دردناک ماضی سے نکالا جائے ،اگر حکومت پاپولر پالیٹکس کی بجائے مزدوروںکی بحالی و خوشحالی کے لیے کئے گئے منصوبوں اور قراداداوں پر ترجیحی بنیادوںپر عملدرآمد کروائے اور غریب کو ریلیف دے تو شاید ان کی حالت بہتر ہو جائے اورکسی دکھاوے اور اداکاری کے بغیر دلوں میں جگہ مل جائے