اقوامِ متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے سربراہ رافیل گروسی پیر کو ایران پہنچ گئے ہیں۔ توقع ہے کہ اس دورے میں وہ ایک کانفرنس سے خطاب کریں گے اور تہران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے حکام سے ملاقات کریں گے۔خبر رساں ادارے تسنیم نے بتایا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل پیر کی دوپہر تہران پہنچے جہاں وہ ایک وفد کی سربراہی میں جوہری کانفرنس میں شرکت اور ملک کے اعلیٰ جوہری اور سیاسی حکام سے گفتگو کریں گے۔ دیگر نیوز ایجنسیوں نے بھی انہی تفصیلات کی اطلاع دی۔یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب علاقائی کشیدگی کافی زیادہ ہے اور جوہری معائنے اور دیگر متعلقہ مسائل پر تعاون کی کمی کے حوالے سے ایران تنقید کا شکار ہے۔توقع ہے کہ آئی اے ای اے کے سربراہ گروسی جوہری سائنس اور ٹیکنالوجی پر ایران کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس میں تقریر کریں گے۔پیر سے شروع ہونے والی سہ روزہ تقریب صوبہ اصفہان میں منعقد ہو رہی ہے جہاں نطنز یورینیم افزودگی پلانٹ ہے اور وہاں گذشتہ ماہ اسرائیل نے حملے کیے تھےآئی اے ای اے اور ایرانی حکام نے اصفہان پر مبینہ حملے کے بعد اطلاع دی تھی کہ جوہری تنصیبات کو "کوئی نقصان" نہیں پہنچا۔ اس حملے کو بڑے پیمانے پر اسرائیل کا ردِعمل قرار دیا گیا جو ایران کا اپنے ازلی دشمن پر پہلی بار براہِ راست حملہ تھا۔ قبل ازیں اسرائیل نے دمشق میں تہران کے قونصل خانہ پر مہلک حملہ کیا تھا۔اپنے دورے کے دوران گروسی کی ایرانی حکام سے ملاقات متوقع ہے جس میں اسلامی جمہوریہ کے جوہری سربراہ محمد اسلمی بھی شامل ہیں۔بدھ کے روز ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ اسلمی نے کہا کہ انہیں "یقین تھا کہ ان مذاکرات سے ابہام کو دور کرنے میں مزید مدد ملے گی اور ہم ایجنسی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوں گے۔"اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق ایران نے حالیہ برسوں میں جوہری تنصیبات پر نگرانی کے آلات کو غیر فعال کر دیا ہے اور معائنہ کاروں کو روک دیا ہے۔گروسی نے آخری بار مارچ 2023 میں ایران کا دورہ کیا تھا اور صدر ابراہیم رئیسی سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایک تاریخی معاہدے کے تحت طے شدہ جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں کی تعمیل کو معطل کر دیا ہے۔ 2018 میں امریکہ کے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران پر دوبارہ بڑی پابندیاں لگانے کے بعد ایسا کیا گیا۔معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد سے ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان کشیدگی بار بار بڑھتی رہی ہے جبکہ یورپی یونین کی ثالثی کی کوششیں اب تک واشنگٹن کو دوبارہ اس طرف لانے اور تہران کو دوبارہ معاہدے کی شرائط کی تعمیل کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔گذشتہ سال ایران نے اپنی یورینیم افزودگی کی رفتار کو سست کر دیا تھا جسے خیر سگالی سمجھا گیا تھا جبکہ امریکہ کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کا آغاز ہوا تھا۔لیکن ویانا میں قائم اقوامِ متحدہ کی جوہری ایجنسی نے کہا کہ ایران نے 2023 کے آخر میں 60 فیصد افزودہ یورینیم کی پیداوار میں تیزی پیدا کی۔فوجی استعمال کے لیے تقریباً 90 فیصد افزودگی کی سطح درکار ہوتی ہے۔تہران نے مستقل طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کسی بھی خواہش کی تردید کی اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن تھیں۔فروری میں اس نے اے ایف پی کی ملاحظہ کردہ ایک خفیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران کے افزودہ یورینیم کا تخمینہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ حد سے 27 گنا تک پہنچ گیا تھا۔اتوار کے روز ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے نے کہا کہ گروسی کا دورہ خاص طور پر معائنہ کاروں کے حوالے سے "فریقین کو اپنے تحفظات کا اشتراک کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔"ایران نے ستمبر میں متعدد انسپکٹرز کی منظوری واپس لے لی اور اس اقدام کو اقوامِ متحدہ کی ایجنسی نے "انتہائی اور بلاجواز" قرار دیا تھا۔تاہم تہران نے کہا کہ اس کا یہ فیصلہ امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے "سیاسی زیادتیوں" کا نتیجہ تھا۔
اسلمی نے کہا کہ ان کے "130 سے زائد انسپکٹرز" ایران میں کام کر رہے ہیں۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ تہران جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون کے لیے پرعزم ہے۔