فراموش کردہ سانحہ اوجڑی کیمپ آج کے تناظر میں

May 07, 2024

نصرت جاوید

ہوش سنبھالتے ہی اپنے معاشرے کو انسان دوست بنانے کی خواہش میں جو خواب دیکھے تھے ان میں سے ایک بھی سچا ثابت نہیں ہوا۔ جس تمنا نے سب سے زیادہ بے چین رکھا وہ حکومتوں کو عوام کے چنے نمائندوں کے روبرو جواب دہ بنانا تھا۔ اس تناظر میں بقول صوفی تبسم ’’سوبار چمن مہکا-سوبار بہار آئی۔‘‘ انجام میں لیکن …’’دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی۔‘‘
بہت کم لوگوں کو یاد رہ گیا ہوگا کہ 1988ء کے اپریل میں ایک صبح اسلام آباد کی فضائوں میں دھماکوں کے ساتھ اچانک میزائلوں کی بارش شروع ہوگئی تھی۔ ربّ کا لاکھ شکر کہ دل دہلادینے والی آوازوں کے ساتھ زمین پر گرے بموں نے قیامت خیز مناظر سے محفوظ رکھا۔ میزائلوں کی بارش تھمی تو ہم عامیوں کو علم ہوا کہ اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والے فیض آباد چوک سے ذرا آگے ایک کیمپ ہے۔ نجانے اسے کیوں ’’اوجڑی‘‘ پکارا جاتا ہے۔وہاں امریکہ کی جانب سے افغانستان پر قابض کمیونسٹ روسی فوج کے خلاف جہاد کرنے والوں کے استعمال کیلئے بھجوائے میزائل ذخیرہ تھے۔ نجانے کس وجہ سے ہتھیاروں کے ذخیرے میں آگ بھڑک اٹھی۔ آگ کی حدت سے وہاں رکھے میزائل ہوا میں اڑ کرپھٹنا شروع ہوگئے۔
ان دنوں فوجی سربراہ کی وردی پہنے جنرل ضیا کے نامزد کردہ محمد خان جونیجو وزیر اعظم تھے۔وہ ایک ایسی قومی اسمبلی کے قائد بھی تھے جسے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ کے ذریعے منتخب کروایا گیا تھا۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے چند ہی روز بعد مگر جونیجو صاحب نے خود کو ’’سچ مچ کا وزیراعظم‘‘ ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ بڑھک بازی کے بغیر سرجھکائے اپنے ہدف کی جانب دھیرے دھیرے بڑھتے رہے۔ اوجڑی کیمپ کے واقعہ نے نظر بظاہر انہیں مضبوط تربنادیا۔ فیصلہ ہوا کہ وفاقی وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی اوجڑی میں ذخیرہ ہوئے اسلحے کی وجہ سے برپا ہوئی قیامت کے اسباب کا جائزہ لے۔ ذمہ داروں کی نشاندہی کے بعد ان کا احتساب بھی یقینی بنایا جائے۔
اوجڑی کیمپ سے جڑے واقعات کی تفتیش وتحقیق کیلئے جو کمیٹی قائم ہوئی اس کے اراکین کی اکثریت تک مجھے بطور رپورٹر کماحقہ رسائی حاصل تھی۔ ان سے مسلسل رابطوں کی بدولت اندازہ ہوا کہ مذکورہ کمیٹی کے چیئرمین -اسلم خٹک- جو کرک کے ایک نامور خاندان کے بزرگ ہوتے ہوئے جبلی طورپر ’’طاقت کے حقیقی مراکز‘‘ پہچان کر ان کی ’’گڈبکس‘‘ میں رہنے کے خواہاں تھے سارے معاملہ پر ’’مٹی پانا‘‘ چاہ رہے تھے۔ مذکورہ کمیٹی میں لیکن ایک جواں سال رانا صا حب بھی تھے۔ یادداشت اگر ساتھ دے رہی ہے تو نام ان کا عارف رانا تھا۔ ان کے والد پرانے مسلم لیگی ہونے کی وجہ سے پیرپگاڑا کے بہت قریب رہے تھے۔ جونیجو صاحب نے انہیں وزارت دفاع کا ’’چھوٹا وزیر‘‘ یعنی وزیر مملکت لگارکھا تھا۔ وہ ’’ذمہ داروں‘‘ کی نشاندہی اور انہیں سزائیں دلوانے کو بے چین تھے۔ شہر میں تاثر یہ بھی پھیل رہا تھا کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو انہیں تھپکی دیتے ہوئے ’’مزید‘‘ کو اکسارہے ہیں۔ بالآخر مگر جنرل ضیاء نے جونیجو مرحوم کو ان کی قومی اسمبلی سمیت گھر بھیج دیا۔ قومی اسمبلی برخاست کرنے کے بعد جو عبوری کابینہ نامزد ہوئی اسے وزیر اعظم کے منصب سے محروم رکھا گیا۔ اسلم خٹک البتہ اس کے رکن بنے اور ’’سینئر وزیر‘‘ کے رتبے سے نوازے گئے۔ ’’سانحہ اوجڑی کیمپ‘‘ بھلادیا گیا۔
سانحہ اوجڑی کیمپ کے ذمہ داروں کی نشاندہی کو بنائی کمیٹی کے انجام کو ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر کی حیثیت میں بہت قریب سے دیکھنے کے بعد میں بتدریج یہ طے کرنے کو مجبور ہوگیا کہ جب بھی کسی ’’سانحے‘‘ کے بارے میں ’’انکوائری کمیشن‘‘ کے نام سے کوئی ’’اعلیٰ سطحی کمیٹی‘‘ بنادی جائے تو اس سے خیر کی توقع مت باندھو۔ صرف یہ جاننے کی کوشش کرو کہ جس واقعہ کو اخبارات میں ’’سانحہ‘‘ قرار دیا جارہا ہے اس کو بھلانے-’’مٹی پا?‘‘- کیلئے کونسا ’’اسلم خٹک‘‘ میدان میں اتارا گیا ہے۔
اوجڑی کے بعد سے بے شمار’’سانحات‘‘ کی وجوہات جاننے کو بنائی کمیٹیوں کو لہٰذا میں نے ایک لمحے کے لئے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایسا ہی رویہ ان ’’تحقیقات‘‘ کے بارے میں بھی اختیار کئے رکھا جو حال ہی میں نواز شریف صاحب کی خواہش پر گندم کی خریداری کے حوالے سے ابھرے’’ بحران‘‘ کے اسباب جاننے کو بنائی گئی تھی۔ اس کالم کے مستقل قاری جانتے ہیں کہ میں نے بہت دن قبل یہ اطلاع دی تھی کہ ربّ کے فضل سے اب کی بار ہمارے ہاں گندم کی فصل ’’بمپر‘‘ شمار ہورہی ہے۔ ریکارڈ بناتی پیداوار مگر کسان کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ حکومت پنجاب نے اسے خریدنے کے لئے 3900روپے فی من قیمت مقررکررکھی ہے۔ حکومت کے گوداموں میں لیکن ’’مزید‘‘ کی گنجائش موجود نہیں۔ کسان کو لہٰذا باردانہ یا گندم رکھنے والی بوری فراہم نہیں کی جارہی ہے۔ گندم کاٹ لینے کے بعد کسان اسے فی الفور بیچ کر اپنی زمین کو نئی فصل کیلئے تیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اسے ’’نقدی‘‘ درکار ہے۔ نقدی فی الوقت مگر آڑھتی ہی سے مل سکتی ہے جو ایک من گندم کا 3100روپے سے زیادہ ایک پیسہ ادا کرنے کو تیار نہیں ہورہا۔ کسانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک من گندم پیدا کرنے کیلئے انہیں چار سے ساڑھے چار ہزار روپے خرچ کرنا پڑے ہیں۔ حکومت کو اس تناظر میں گندم بیچنا گھاٹے کا سودا ہے۔ اس کے مقابلے میں آڑھتی کی طے شدہ قیمت مگر ہر حوالے سے ناجائز ہے۔نقدی کے بغیر کٹی گندم کے کھیتوں میں لگائے انبار نے پنجاب کے بے شمار رقبوں کے مالک کسانوں کو غیرموسمی بارشوں اور بسااوقات ڑالہ باری نے مزید پریشان کررکھا ہے۔ وہ احتجاجی جلسے اور جلوسوں کو مجبور محسوس کررہے ہیں۔ 
کسانوں کی پریشانی کی خبر مسلم لیگ (نون) کے قائد نواز شریف صاحب تک پہنچی تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو جو وطن عزیز کے وزیر اعظم بھی ہیں جاتی امراء طلب کرلیا۔ طلبی کے دوران چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی سے کسانوں کو پریشان کرنے کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کا وعدہ کیا۔ مذکورہ وعدے کی تکمیل ہوتی مگر نظر نہیں آرہی۔ دریں اثناء￿ وفاقی حکومت نے یہ کوشش بھی کی کہ گندم کے حوالے سے ابھرے بحران کی ذمہ داری نگران حکومت کے کندھوں پر ڈال دی جائے۔یہ کوشش ہوئی تو 2023ء سے 2024ء تک چھ ماہ کیلئے وزیر اعظم رہے انوار الحق کاکڑ صاحب سینہ پھلاکر میدان میں اترآئے۔ صحافیوں کی ’’جہالت‘‘ بے نقاب کرنے کے علاوہ اشاروں کنایوں میں اور بھی بہت کچھ کہہ دیا۔ کاکڑ بولے تو وفاقی حکومت کے ’’بڑبولے‘‘ وزیر خاموشی اختیارکرنے کو مجبور ہوگئے۔ دریں اثناء  کسان کو آج بھی باردانہ نہیں مل رہا اور وہ آڑھتی کی طے شدہ قیمت لے کر اپنی زمین نئی فصل کیلئے تیار کرنے کو مجبور ہوچکا ہے۔

مزیدخبریں