اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمشن رپورٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے۔ عدالت نے کہا ہے کہ لگتا ہے پوری انکوائری کمشن رپورٹ کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا۔ عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا ہماری رائے میں کمشن کی رپورٹ میں ٹی او آرز کا جواب نہیں دیا، کمشن ان موضوعات میں گیا جو کہ ٹی او آرز میں شامل ہی نہیں تھے۔ عدالت نے نوٹ کیا کمشن نے سب سے یکساں برتائو نہیں کیا، کچھ بیانات حلف پر لیے گئے جب کہ کچھ افراد کو محض سوالنامہ بھجوایا گیا، حیران کن طور پر کمشن نے ٹی ایل پی کے کسی رکن کا بیان قلم بند نہیں کیا، انکوائری کمشن نے اپنا دائرہ اختیار کو غلط سمجھا کہ اسلام آباد احتجاج کے لیے آنا آئینی طور منع ہے، کمشن نے عدالتی فیصلے کے اس پہلو کو نہیں دیکھا کہ فیصلے میں لکھا ہے کہ قانون کے دائرے میں پرامن احتجاج آئینی حق ہے، انتہائی مایوسی کی بات ہے کمشن نے رپورٹ میں صوبائیت کو ہوا دی، کمشن نے اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کو نظر انداز کیا۔ عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کمشن رپورٹ کی توثیق کرتی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا وہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کریں گے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں کمشن کی رپورٹ کچھ مواد نہیں، کمشن نے ٹی او آرز پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی۔ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی جانب سے رپورٹ داخل کریں۔ اٹارنی جنرل تحریری طور پر دو ہفتے میں بتائیں کیا حکومت اس رپورٹ کو پبلک کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ حکومت کمشن کی رپورٹ پر عدالتی حکم کی آبزرویشن سے کمشن کے ارکان کو آگاہ کرے، کمشن کے ارکان عدالتی آبزرویشن کا جواب تحریری یا عدالت میں پیش ہو کر ذاتی حیثیت میں دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے انکوائری کمشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔ دھرنے کی وجہ سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، پاکستان کے نقصان کی کسی کو پروا ہی نہیں، آگ لگائو، مارو یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا جنرل ( ر) فیض حمید نے کمشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے، رپورٹ کے ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں مالی معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، دوسرے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کی مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں۔ مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤیہ کیا طریقہ کار ہے؟۔ مجھے تو انکوائری کمشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے، پاکستان بنا تھا بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟۔ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے، کمشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں پنجاب حکومت ذمہ دار ہے، اس کمشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی، مجھے کہیں بھی اس کمشن کی فائنڈنگ نظر نہیں آرہی، انکوائری کمشن نے پارلیمان اور عدالت کی پاور لی مگر جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا، جو کام تھا وہ نہیں کررہے بلکہ ادھر ادھر کی عجیب باتیں کر رہے ہیں، بہت شکریہ۔ یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمشن بنانے کی ضرورت تھی؟۔ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کمشن نے لکھا نظرثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اور اپنی وجوہات پر واپس لیں۔ چیف جسٹس نے کہا ماشاء اللہ، یہ کمشن والے لوگ پتہ نہیں پولیس میں کیسے رہے، یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں، کیا کمشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟۔ شاید ٹی ایل پی والے ہی کمشن کی معاونت کر دیتے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا انکوائری کمشن کی رپورٹ میں ٹی ایل پی کے کسی بندے کا بیان نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے شاید انہیں ڈر لگ رہا تھا، جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا موقف لے لیتے، اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پرامن مظاہرین نہیں تھے، لگتا ہے ڈی جی آئی بی نے گھر سے رپورٹ بنوا کے جمع کروا دی، یہ رپورٹ بہت مایوس کن ہے، انکوائری کمشن رپورٹ کے بجائے اخبار میں آرٹیکل لکھ دیتا، انکوائری کمشن والے تو دفتر سے باہر تک نہیں نکلے، سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس تو ایک بم بنانے والی فیکٹری تک گیا تھا، یہاں کمشن نے جو انگریزی رپورٹ میں استعمال کی وہ بھی غلط، ادھر ادھر سے محاورے اٹھائے اور رپورٹ میں ڈال کے بھیج دیئے، لگتا ہے پوری انکوائری کمشن رپورٹ کا مقصد فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا، فیض حمید نے یہ فتویٰ دیا اور کمشن والوں نے مان لیا، کیا فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا انکوائری کمشن نے فیض حمید کو سوالنامہ بھیجا تھا جس جواب آیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا اوہ ہو اچھا! انکوائری کمشن نے فیض حمید کو بلانے کی جرات تک نہیں کی؟۔ ہم نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا تھا، کمشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں، کیا کمشن والوں کو انکوائری کیلئے کوئی رقم بھی دی گئی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے، میں اس پر وفاقی حکومت سے ہدایات لوں گا۔ بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔