کسان گندم اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور

محمد سلیمان بلوچ 

خوراک کے بغیر انسانی زندگی کا تصور نا ممکن ہے اور خوراک بھی وہ جو صحت مند ہو نے کے سا تھ ساتھ ضروری غذائیت سے بھر پور ہو کیونکہ ایسی ہی غذا کے بتیجے میں کسی بھی قوم کی مجموعی استعداد اور قوت عمل ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے صحت مند اور غذائیت سے بھر پور خوراک کی بروقت فراہمی ہر انسان کا بنیادی حق ہے زمین پر سورج کی پہلی کرن پڑنے سے پہلے کسان آلات اٹھاکرفصلوں کی طرف رخ کرتاہے  اور نئے دن کے آغاز پر پْرامید پْر عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ زمین میں محبت کا بیج بوتاہے اور اپنے خون پسینے سے آبیاری کر کے پودوں کو پروان چڑھاتا ہے اس یقین کے سا تھ کہ اسکی محنت کا پھل صرف ان کے لئے نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کو استحکام پہنچانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہاہے پاکستان کی تقریباّ 37فیصد آبادی براہ راست زراعت سے منسلک ہے اور کسان ہمارے ملک کی معیشت میں تقریباّ23فیصد کردار ادا کرتے ہیں زمین کی تیاری اور بیج کی بوائی سے لیکر کھادوں اور پروڈکٹس کی خریداری ،بدلتے موسموں حالات،سیلاب آندھی اور طوفان جیسی مشکلات کو پْر عزم،بلند ہمت اور حوصلے کے ساتھ سا منا کر تا ہے اس کے باوحود زراعت کے شعبہ پر حکومتی اداروں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے اگر موجودہ حالات میں گندم کی کاشت پر نظر دوڑائیں تو گندم کی بوائی سے لیکر تیاری تک مہنگی کھادیں،ڈیزل،بجلی اور زرعی ادویات کے استعمال سے ہزاروں روپے خرچہ آتا ہے اس امید پر کہ انکی محنت کا اچھا معاوضہ ملے گا مگر حکومت کی غلط پالیسیوں اور محکمہ خوراک ، پاسکو کے افیسران و عملہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے کسانوں کا نہ صرف کسا نوں کا استحصال کیا جارہا بلکہ کسان گندم اونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔فوڈسنٹروں کے انچارجوں نے باردانہ حقیقی کاشتکاروں و کسا نوں کو دینے کی بجائے مڈل مینوں،آڑہتیوں سے ملی بھگت کر کے  معاملات طے کر رہے ہیں باردانہ کے حصول کا پیچیدہ طریقہ کار سے سادہ لوح کسان واقفیت نہ رکھنے سے فو ڈ سنٹروں کے چکر پہ چکر لگانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہیں  ۔کسانوں اور کسان تنظیموں کی طرف سے ان ظالمانہ اقدامات اور مقررہ ریٹ پر گندم نہ خریدنے پر روڈوں اور ایوانوں کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں مگر حکومت کسانوں کی صدائیں سننے کی بجائے ان پر لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کر رہی کسان جو کہ ہمارا محسن ہے اگر محسن کے سا تھ ایسا سلوک روارکھا جارہا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب کسان دلبرداشتہ ہو کر گندم کی کاشت کرنا چھوڑ دے ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ حکومت ماں کی طرح ہوتی ہے اور اپنے شہریوں کی بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتی ہے جونہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے بچوں کو گزند پہنچنے والی ہے یا پہنچ رہی تو وہ اپنے پر پھیلا کر ان کی حفاظت کے لئے پہنچ جاتی ہے اب ایسا محسو س ہو رہا ہے کہ حالات بڑی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں اور  حکومت نے سوتیلی ماں کاروپ دھار لیا ہے اور اس کی ممتا سنگدلی میں بدل گئی ہے حکومت کسانوں کو پر پھیلا کر ریلیف جیسے اقدامات کی بجا ئے سوتیلی ماں کا روپ دھار کر ان پر لاٹھیاں بر سا رہی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ کسانوں کا استحصال نہ ہونے دے خدانخواستہ اگر زراعت کا شعبہ جو کہ ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا ہے اسے سنبھا لا نہ گیا  تو ملکی معیشت جو کہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے دھڑام سے نیچے آگرے گی حکومت کو چاہیئے کہ وہ گندم کی خریداری کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے اور اس بات کو تقینی بنائے کہ کسانوں سے مقرر کردہ نرخ پر گندم خرید کرے تاکہ اگلی فصل پر گندم کی بوائی کی حوصلہ شکنی نہ ہو ۔

ای پیپر دی نیشن