حماس نے پیر کو اعلان کیا کہ اس نے مصر اور قطر کی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرلیا ہے۔ حماس کے اس بیان کے بعد غزہ میں فلسطینیوں نے خوشیاں منانا شروع کردیں۔ تاہم دوسری طرف اسرائیلی جانب کے معاملات اس طرح کے نہیں تھے۔ حماس کی قید میں یرغمال اسرائیلییوں کے اہل خانہ بھی سڑکوں پر آگئے اور مظاہرے شروع کردئیے۔یرغمالیوں کے اہل خانہ نے حماس کی جانب سے جنگ بندی تجویز کی منظوری کے اعلان پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان کے اہل خانہ کی واپسی ہوجائے۔ انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کے اہل خانہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ’’ قیدیوں کو واپس لاؤ، ورنہ ہم ملک جلا دیں گے‘‘یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب حماس کے ایک اہلکار نے ’’العربیہ‘‘ کو بتایا کہ حماس نے جنگ بندی کی مجوزہ تجویز پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ حماس کے ایک رہنما طاہر النونو نے بتایا کہ حماس کی طرف سے منظور کردہ تجویز میں جنگ بندی، غزہ کی تعمیر نو، بے گھر افراد کی واپسی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ شامل ہے۔اس جنگ بندی کی تجویز میں تین مراحل رکھے گئے ہیں۔ ہر مرحلہ 42 دنوں پر محیط ہوگا۔ پہلے مرحلے میں وقتی جنگ بندی ہوگی، دوسرے مرحلے میں مکمل جنگ بندی ہوگی اور تیسرے مرحلے میں غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کے خاتمے کی سفارش کی گئی ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے بھی پہلے مرحلے میں 33 اسرائیلی یرغمالی رہا کرنے دوسرے مرحلے میں تمام یرغمالی اور تیسرے مرحلے میں فوت ہونے والوں کی لاشوں کو حوالے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔