پڑوسی ملک ہندوستان کا موجودہ ملکی سیاسی منظر نامہ آزادی کے بعد کے برسوں کے جواہر لال نہرو کے ان دنوں کی یاد دلاتا ہے جب چناؤ میں انہیں اوپر تلے دو بار فتح حاصل ہوئی تھی۔ پردھان منتری نریندر مودی اگر اس چناؤ میں تیسری بار بھی جیت جاتے ہیں تو وہ اس معاملے میں نہ صرف ان سے بلکے اپنے ہم عصروں سے بھی آگے نکل جائیں گے۔میڈیا میں بی جے پی کے اس دعویٰ پر بہت لے دے ہو رہی ہے کہ وہ آنے والے لوک سبھا چناؤ میں 400 نشستیں حاصل کر لے گی۔ بی جے پی اپنے اس دعویٰ کو سچ کر دکھاتی ہے یا نہیں لیکن اس بلند و بانگ دعویٰ کی وجہ سے باقی تمام مسائل، چاہے وہ غربت کا مسئلہ ہو یا عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کا مسئلہ ، نہ صرف پس پردہ چلے گئے ہیں بلکہ قومی بحث مباحثے میں ان کی کوئی جگہ ہی نہیں رہی۔ نریندر مودی اپنی سابقہ فتوحات کے زعم میں اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ مقامی اور علاقائی سیاست کی حرکیات بدل رہی ہیں ۔ سن 2019ء کے بعد سے بہت کچھ بدل چکا ہے : تقریباً 18 کروڑ 90 لاکھ نئے ووٹر اس چناؤ میں پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور حال ہی میں ہونے والے ریاستی چناؤ نے بھی، خاص طور پر جنوبی ہندوستان میں، بی جے پی کی راہ میں بہت سی مشکلات کھڑی کر دی ہیں ۔پورے ہندوستانی سیاسی منظر پر نظر رکھی جائے تو جنوبی ریاستوں میں بی جے پی کو بعض منفرد نوع کے مسائل کا سامنا ہو گا ۔ روایتی طور پر بی جے پی کا گڑھ یا ووٹ بینک ہندوستان کا وہ شمال مغربی علاقہ ہے جسے ہندی مرکز بھی کہا جاتا ہے اور جس کا اثر و رسوخ ارتقاء پذیر ہے۔ تاہم لوک سبھا کی نشتوں ، جن میں سے 130 جنوبی ہندوستان میں ہیں ، سے ایک قابل ذکر اکثریت حاصل کرنا پھر بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں تھی وہاں کی تقریباً 200 نشستوں میں سے بی جے پی 50 سے زیادہ نشستیں نہیں لے سکی تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاسی حرکیات کے علاوہ ان ریاستوں سے بی جے پی کی شکست کے پیچھے ایک بڑی وجہ ان ریاستوں میں شرح خواندگی کا زیادہ ہونا تھا۔ یہاں تک کہ اس امر کی تصدیق کیرالہ سے بی جے پی کے پہلے نمائندے راج گوپال نے بھی کی تھی کہ جنوب میں بی جے پی کی شکست کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان علاقوں کا زیادہ تعلیم یافتہ ہونا بھی تھا۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بی جے پی جنوبی ہندوستان میں ، جہاں تامل ناڈو اور کیرالہ جیسی ریاستیں آسان انتخابی ہدف نہیں ہیں، اپنے قدم جمانے کی کوششوں پر مسلسل کام کرتی رہی ہے۔
جنوبی ہندوستان میں اصل مقابلہ کانگرس اور بائیں بازو کی جماعتوں میں ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے چناؤ کے رجحان میں کوئی بڑی تبدیلی دکھانا بی جے ہی کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے۔ بی جے پی جنوبی ہندوستان میں کوئی انتخابی معرکہ تو نہیں مار سکتی لیکن یہ جماعت مقبولیت پسندی کے ووٹوں کی ایک بڑی تعداد کو حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو سکتی ہے ۔ 2019 کے چناؤ میں بی جے پی نے ریاست کیرالہ سے کوئی نشست حاصل نہیں کی تھی لیکن پھر بھی ان کو کل ووٹوں کا 12 فیصد حصہ تو مل ہی گیا تھا۔ اسی طرح سے ، ریاست تامل ناڈو میں بی جے پی نے کل 5 نشستوں کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے اور کسی بھی نشست پر نہ جیتنے کے باوجود بی جے پی کے نمائندے، 15 لاکھ سے بھی زائد ووٹ لے کر، تمام نشستوں پر دوسرے نمبر پر آئے تھے۔لیکن یہ تناسب دیکھنے کے بعد حیرت انگیز طور پر بی جے پی کی قیادت میں بنے اتحاد NDA اور کانگرس کی قیادت میں بنے اتحاد نے لوک سبھا کے 2019 کے چناؤ کے پہلے مرحلے میں برابر کی نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ DMK جو ایک علاقائی جماعت ہے اور اس وقت کانگرس کی اتحادی تھی نے تامل ناڈو میں بی جے پی کو شکست دے دی تھی۔ تاہم بازی ان ریاستوں کے نتائج نے پلٹی جہاں بی جے پی کا زور تھا اور وہاں یہ ہوا کہ کانگرس کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ سیاسی منظر سے اس کا صفایا ہی ہو گیا ۔ خبروں کے مطابق چناؤ کے پہلے مرحلے میں جہاں جہاں بی جے پی کے قائدین کا اعلان ہوا ہے وہاں ووٹر کا ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ باعث حیرت ہے کہ مودی کو مسیحا بنا کر پیش کرنے کی تمام کوششوں اور فلاح و بہبود کے ان گنت منصوبے شروع کرنے کے باوجود ہندوستانی ووٹر نے 2019ء کے چناؤ کے مقابلے میں اپنا ووٹ کم استعمال کیا ۔ اس حقیقت نے بی جے پی کو تلخ سبق سکھایا اور اسی کے تدارک کے لیے ہی بی جے پی نے راجپوت اکثریت کے حامل مغربی یوپی کے علاقے ، جو بی جے پی کا گڑھ تھا، کے ووٹر کو متحرک کرنے کے لیے تگ و دو شروع کی۔
دوسری طرف کانگرس اپنی انتخابی حکمت عملی کو از سر نو مرتب کر رہی ہے خاص طور تلنگانہ جیسی ان ریاستوں میں جہاں حال ہی میں کانگرس کو فتح حاصل ہوئی ہے ۔ کانگرس کے "6 وعدوں" یا یقین دہانیوں کو عوام میں خاطر خواہ پذیرائی ملی ہے جس کی وجہ سے ریاستی چناؤ میں تو کانگرس نے فتح حاصل کر لی تاہم ، علاقائی سطح پر ان فتوحات کے باوجود قومی سطح پر کانگرس کو بی جے پی کی قیادت میں بنے NDA یا نیشنل ڈیموکریٹک الائنس جیسے بڑے چیلنج کا سامنا اب بھی ہے۔ بی جے پی کے اس دعویٰ نے کہ وہ آنے والے چناؤ میں لوک سبھا کی 400 نشستیں حاصل کرے گی حزب اختلاف میں بے چینی کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس بیان نے کانگرس کو خاص طور پر متاثر کیا ہے جو حزب اختلاف کی سب سے بڑی اور اہم جماعت ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ حزب اختلاف کی چناؤ سے پہلے کی انتخابی مہم ہی پھیکی اور بے جان سی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بی جے پی غیر معمولی طور پر متحرک اور تنظیمی نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ حزب اختلاف کمزور، منتشر اور بعض معاملات میں تو مردہ دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی تحرک میں نظر آنے والے اس عدم توازن اور اس شدید تفاوت نے بہت سے لوگوں کو تذبذب میں ڈال دیا ہے کہ حزب اختلاف بی جے پی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر بھی پائے گی یا نہیں۔
کانگرس کو ایک متحرک سیاسی جماعت اور حزب اختلاف کی ایک مؤثر طاقت کے طور پر اپنی جگہ بنانے کے لیے نہ صرف خود کو زندہ کرنا پڑے گا بلکہ مقامی سطح تک خود کو ہر ووٹر سے مربوط کر کے حکومت سازی کا ایک واضح اور شفاف لائحہ عمل بھی دینا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ کانگرس کو اس حقیقت کی طرف بھی آنکھیں کھولنی چاہئیں کہ اپنے ووٹر خاص طور پر نوجوان نسل کو بیدار کرنے کے لیے سماجی میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کی طاقت کو کیسے استعمال کرے۔ہندوستانی سیاست میں بی جے پی کی طاقت سے انکار مشکل ہے لیکن دوسری طرف کانگرس اور مجموعی طور پر حزب مخالف بھی بالکل ہی بے یار و مددگار نہیں ہے۔ ہندوستانی سیاسی منظر نامہ ارتقاء پذیر ہے اور ان دنوں تو تیزی سے بدل رہا ہے۔ کانگرس کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور ایسا لائحہ عمل مرتب کرے جو ہندوستانی ووٹر اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔
ہندوستانی انتخابی منظر ’’لوک سبھا چناؤ 2024‘‘
May 07, 2024