پاکستان کی فوج کے اہم ترین جنرل پاشا کا حالیہ دورہ سعودی عرب کسی نئی پیش رفت کی طرف اشارہ دے رہا ہے۔ جنرل پاشا کے دورہ سعودی عرب سے پہلے سعودی عرب کی ایک اہم شخصیت میاں نواز شریف سے ملنے پاکستان آئی۔ مسلم لیگ (ن) اور میاں صاحب پری وار اس ملاقات کے حوالہ سے کوئی بات نہیں کرتے۔ چند دن پہلے جب میاں نواز شریف نے میڈیا کے سامنے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب اور مرکز مےں حزب اختلاف کے لیڈر کی جنرل کیانی سے رات گئے کی ملاقات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تو ملک بھر کے سیاسی حلقے میاں صاحب کی نئی کروٹ پر ذرا ذرا حیراں تھے۔ یہ ملاقات بھی اس وقت ہوئی جب باخبر حلقوں کی طرف یہ بات منظر عام پر آئی کہ زرداری سرکار جنرل کیانی کی رخصتی چاہتی ہے۔ اس تمام پس منظر مےں وزیراعظم پاکستان حق میزبانی سے غافل نہ ہوئی۔ اس دورہ کی سب سے اہم چیز وہ تحفے تھے جو محترمہ ہلیری کلنٹن کو ذاتی حیثیت مےں حکومت پنجاب‘ مرکزی سرکار اور جناب صاحب بہادر سینیٹر وزیر داخلہ نے پیش کئے مگر وہ وزیر خارجہ کی خطابت کو نہ پہنچ سکے۔ وزیر خارجہ امریکہ کے دورہ کی تیاری مےں ہمارے سفیر محترم حسین حقانی کی بہت ریاضت شامل تھی۔ مگر کیری لوگر بل پر ان کی مشاورت نے ان کو بہت ہی بددل کر دیا ہے۔ امریکی ان کی سوچ اور فکر سے بہت متاثر تھے۔ مگر اب امریکی بدگمانی کا شکار ہےں کہ ان کے تمام اندازے اور ارادے عوامی ردعمل کی وجہ سے مشکوک ہوگئے ہےں پھر بھی پاکستان کی انتظامیہ امریکی امداد کےلئے بے چین ہے۔ کیری لوگر بل اب بھی ان کےلئے دوستی اور رفاقت کے ناطے ضروری ہے اور زرداری سرکار اس خوش گمانی مےں مبتلا ہے کہ اگر جمہوریت کو کچھ ہوا تو کیری لوگر مسودہ اس کا علاج کر سکے گا۔ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی اقتدار مےں آنے کے بعد عوام پر بھروسہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے عوام مےں ان کا بھرم ختم ہورہا ہے۔
اس وقت این آر او کے مسئلہ پر تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا ردعمل دے رہی ہےں این آر او کا مسودہ اور قانون امریکی مشاورت مےں نہ تھا اس زمانہ مےں بے نظیر کے ساتھ ساتھ حسین حقانی اس کی تیاری مےں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ بے نظیر کے قتل کے بعد این آر او کی حیثیت بھی بدل گئی۔ ایم کیو ایم نے این آر او سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اتنا اٹھایا کہ وہ اب دوبارہ اپنے معاملات عدالتوں کے پاس لے جانے پر تیار ہےں۔ اس طرح وہ عدلیہ کا اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہےں اور عوامی ردعمل مےں اپنی حیثیت منوانا چاہتے ہےں۔ یہ فکر اور سوچ زرداری سرکار کےلئے ناقابل فہم ہے۔ فوج کے طبقات بھی این آر او کے بارے مےں حسن ظن نہیں رکھتے۔ زرداری صاحب نے بے نظیر کے ساتھیوں کو نظر انداز کر کے عوامی حمایت کم کر لی ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف این آر او پر واضح ردعمل ظاہر کر رہے ہےں الیکشن کی تیاریوں مےں مصروف ہےں جبکہ شہباز شریف درمیانی راستہ چاہتے ہےں۔ وہ درمیانی مدت کے انتخابات پر راضی نہیں لگتے۔ نئی صورت حال مےں ایم کیو ایم فوج کی حلیف بن کر عدلیہ کے سلسلہ مےں اپنی سابقہ روش کا داغ دھونا چاہتی ہے اور وہ بھی اس سلسلہ مےں سیاسی جماعتوں کے ردعمل کا سامنا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہےں۔ اس وقت سب سے کمزور حیثیت سیاسی جماعتوں کی ہے انہوں نے عوام کی بہتری کےلئے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔ زرداری صاحب ایک روڈ میپ کے ذریعے اقتدار پر حاوی ہوگئے مگر آئندہ کے حوالے سے ان کی ٹیم بہت بودی نکلی مگر اب دیر ہو چکی ہے۔ نئی صورتحال مےں قومی حکومت ہی بہتر حل ہے اور اس ہی وجہ سے سعودی
عرب اور امریکہ اپنے اپنے اہم لوگوں کو پاکستان مےں قابل ذکر لوگوں سے مشاورت کےلئے اعتماد مےں لے رہا ہے۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی بحران ہماری فوج کی توجہ دہشت گردی کی جنگ سے ہٹا سکتا ہے۔ اب اندرون خانہ دہشت گردی کو روکنے کےلئے ایک ہی ٹیم کی ضرورت ہے جس کےلئے فریقین کے پاس وقت کم ہے۔ اس وقت وطن کی بقا کےلئے اپنے فیصلے خود کرنے ہونگے۔ امداد حال کرنا برا نہیں مگر خودکفالت کےلئے قربانی کے لئے تیار ہونا ضروری ہے۔ امریکی امداد اچھی ہے مگر وطن کے ناطے امداد کی بجائے اعتماد کے فقدان پر توجہ دی جائے۔ اتنی دوری کے باوجود امریکی دوستی قابل احترام اور باہمی اعتماد عوام اور جمہوریت کےلئے ہونا چاہئے۔