بیکن ہاﺅس کا دو روزہ تعلیمی میلہ

بیکن ہاﺅس انتظامیہ نے ” سکول آف ٹو مارو“ یعنی مکتبِ فردا کے عنوان سے شاہراہِ قائداعظم محمد علی جناحؒ لاہور پر واقع ایک فیشن ایبل ہوٹل میں 5اور6نومبر2010ءکو ایک ایسی تقریب کا اہتمام کیا جو واقعتا ایک میلے کا منظر پیش کر رہی تھی، ایک بڑی کانفرنس کیلئے چار بجے شام تک انتظام کیا جارہا تھا اور ہوٹل کے ایک پورے ونگ کو ایک بڑے ہال میں تبدیل کرکے وہاں سینکڑوں خوبصورت سفید پوش صوفہ نما کرسیاں آراستہ کردی گئی تھیں، دراصل لاہور میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فصل ایک خصوصی زراندوز طبقے کے علاوہ امیرو غریب کا فرق محسوس کئے بغیر ہر سٹوڈنٹ یا ان کے والدین کی جیب پر ہاتھ رکھ کر جس طرح لعل و جواہر اگل رہی ہے اس سے” بے چارگانِ زر“ کیلئے تو اعلیٰ یا ادنیٰ تعلیم کا حصول بھی ضرور مشکل ہوگیا ہوگا مگر ان اداروں کو قائم کرنے والوں پر” ہُن“ برس رہا ہے جس کا ایک ثبوت وہ تقاریب بھی ہیں جو مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کی طرف سے یکے بعد دیگرے لاہور کے انتہائی ہوشربا گرانی کی علامت بنے ہوئے ہوٹلز میں منعقد ہورہی ہیں مگر زیر تبصرہ تقریب کو دیکھ کر تو ہمارے بھی”طوطے“ اڑ گئے ہال میں پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات موجود تھیں مگر ہمارا خیر مقدم ڈاکٹر تیمور الحسن نے کیا۔ دراصل اس تعلیمی تقریب میں ”میڈیا ورکشاپ“ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا اور ڈاکٹر تیمور الحسن کو تقریب میں صحافیوں سے گفتگو کیلئے بلایا گیا تھا مگر ان کی گفتگو کے بعد اس میڈیا ورکشاپ کے دیگر شرکاءکو بھی خیالات کے اظہار کی عام دعوت دی گئی، انہوں نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ ایک رپورٹر کسی تقریب کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنی رائے کو تقریب کی حقیقی کارروائی میں نحل نہیں ہونے دیتا تھا مگرآج کل صحافت کے اخلاقی ضوابط کو ملحوظ نہیں رکھا جا رہا رپورٹرز کو وہ معاملہ بھی کریدنا چاہیے کہ کسی (بڑے) تعلیمی ادارے کی فنڈنگ کے معاملات کیا ہیں اور وہ فنڈ کہاں سے آئے یا آرہے ہیں جن سے اس تعلیمی ادارے کا شکوہ قائم کیا جا رہا ہے جس طرح ایک رپورٹر کو ایک رپورٹ کا حصہ بن جانے کا حق حاصل نہیں ہے اور ہم ایک سچے پاکستانی کے طورپر ان افراداور اداروں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے جو کسی غیر ملکی طاقت سے براہِ راست کوئی قرض، گرانٹ یا امداد یا مراعات حاصل کرنے سے مرتکب ہوئے ہیں یا ہورہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن