پاکستان جتنا مہنگا بنا تھا اتنی ہی اس میں مہنگائی پیدا ہو گئی۔ آج کی حکومتوں نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ اگر ڈنگ ٹپانا ہے تو عوام کو مہنگائی میں الجھا دیں اور خود سلجھے حالات میں الجھی ہوئی لسٹیں سلجھاﺅ، ملک کی ساکھ، نظریہ پاکستان، دفاع وطن، خودمختاری، روزگار، امن و امان اور گڈ گورننس پر دو حرف بھیجو، اور جمہوریت کی مالا جپتے رہو تاکہ لوگ باگ سمجھیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ جمہوریت کر رہی ہے۔ اگر جمہوریت اتنی مہنگی پڑتی ہے تو اس ملک کو کسی امیر ملک کو ٹھیکے پر دے دیا جائے یا بس چلے تو اسے بیچ کر قیمت جیب میں ڈال کر کسی بھی مرضی کے ملک میں اپنا عیش کدہ کھول لیا جائے۔ اس طرح لوگ کم از کم دو وقت کی روٹی تو غلامی کے سالن سے آرام کے ساتھ کھا سکیں گے۔ جب پاکستان نہیں بنا تھا اور یہاں انگریز کی حکومت تھی تو تمام معاملات درست چل رہے تھے۔ اب یہ اس لئے غلط چل رہے ہیں کہ غلامی نہ رہی آزادی مل گئی، یعنی مادر پدر آزادی! حکومت کی رٹ کا یہ عالم ہے کہ سعودی شہزادے نے وزارتِ حج کے خلاف شکایت وزیراعظم کی بجائے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کی۔ اس سے بڑھ کر بیڈ گورنننس اور کیا ہوگی جسے حکمران گڈ گورننس کا نام دیتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی نہ ہو، اس کے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہوں وہ واقعتاً کسی عذاب سے گزر رہا ہے۔ یہ لٹیرے ہم نے خود ہی چنے ہیں اور آئندہ بھی شاید ایسا ہی کرینگے۔ سیلاب آیا اور کروڑوں کو بے گھر کر گیا۔ پوری دنیا سے مدد آئی مگر ظالموں نے وہ بھی پوری کی پوری متاثرین تک نہ پہنچنے دی۔ نیوز ویک نے چوکٹا لگا کر یہ شرمناک بات باتصویر تحریر کی ہے کہ ہالبروک نے گلہ کیا ہے کہ امریکہ نے 700 ملین ڈالر بھیجے مگر حکومت پاکستان کہتی ہے کہ ہمیں ملے ہی نہیں۔ جو حکمران سیلاب زدگان کیلئے خیراتی رقم کھا جائیں بھلا وہ اپنے عوام کو کیا دے سکتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث غریب لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، عوام کو مہنگائی کے جال میں اس لئے پھنسا دیا گیا ہے کہ لوٹنے والے آزادی سے لوٹ مار کریں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ع
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
ساری دنیا میں ہمارے سفارت خانے نیک نامی کی بجائے ملک کیلئے بدنامی کما رہے ہیں اس لئے کہ ان کو رسوائے زمانہ حکمرانوں نے تعینات کیا۔ انسان اور وہ بھی پاکستان کا انسان، اس وقت انسانیت کے اسفل السافلین میں غوطے کھا رہا ہے۔ عوام ناک تک تنگ آچکے ہیں مگر کوئی ایسی قیادت نہیں ابھرتی جو اس شعلے کو لے کر چلے اور ہر خوشے کو جلا کر راکھ کر دے کیونکہ ان خوشوں میں چند لوگوں کی خوشیاں اور اکثریت کیلئے کانٹے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ لکھا ہوا موجود ہے۔ قرارداد مقاصد میناروں پر کندہ ہیں مگر حکمران اس قدر گندہ ہیں کہ مجال ہے جو نظریہ پاکستان پر عمل درآمد کرائیں۔ اشرافیہ، کہنے کو پاکستانی ہے مگر اس کی دولت، بچے، جائیدادیں سب کچھ وطن سے باہر ہے۔ وہ خود اس لئے ایک بریف کیس لے کر یہاں بیٹھی ہے کہ ملک کو مزید لوٹ سکے۔ جس ملک میں چینی کی ملیں حکمرانوں، اسمبلی کے ارکان اور بڑے بڑے سیاست دانوں کی ہوں وہاں چینی کا 92 روپے فی کلو بکنا لازم ہے۔ بھلا وہ کیسے قیمتوں کو نیچے لائیں، اس طرح تو وہ خود نیچے آجائیں گے۔ وزیر خوراک کو اتنی لاج نہیں آئی کہ لوگوں سے کہہ ڈالا چینی نہیں خرید سکتے تو اس کا استعمال ترک کر دوں حالانکہ ان کی اپنی دو چینی کی ملیں ہیں! الغرض حکمران، اہل اثر اور سیاست دان ذات کے دکاندار ہیں اور عوام ان کے خریدار جبکہ باہر سمگل کرنے کا راستہ بھی کھول رکھا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام نے یہ ملک اس لئے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا کہ وہ 100 روپے کلو چینی خریدیں؟ اقبالؒ کو زندہ کیجئے اور اس کی ایک ہی صورت ہے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یہ ملک تو قائم رہے گا مگر انقلاب کے بغیر اس کے عوام لٹتے رہیں گے، مٹتے جائیں گے اور ہم غیروں کو کیا روئیں، اندر کے میر صادق و جعفر ہی اتنے ہیں کہ باہر کے دشمنوں کو آسانی ہو گئی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس سرزمین کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہماری جگہ کوئی اور قوم ہوتی تو وہ حکمرانوں کو سیدھا کر دیتی یا ان سے جان عچھڑانے کیلئے وہ تو کجا ان کی نرسری بھی ختم کر دیتی۔
ایک ایسا ملک جس کے پاس وسائل کی کمی نہ ہو، اس کے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسک رہے ہوں وہ واقعتاً کسی عذاب سے گزر رہا ہے۔ یہ لٹیرے ہم نے خود ہی چنے ہیں اور آئندہ بھی شاید ایسا ہی کرینگے۔ سیلاب آیا اور کروڑوں کو بے گھر کر گیا۔ پوری دنیا سے مدد آئی مگر ظالموں نے وہ بھی پوری کی پوری متاثرین تک نہ پہنچنے دی۔ نیوز ویک نے چوکٹا لگا کر یہ شرمناک بات باتصویر تحریر کی ہے کہ ہالبروک نے گلہ کیا ہے کہ امریکہ نے 700 ملین ڈالر بھیجے مگر حکومت پاکستان کہتی ہے کہ ہمیں ملے ہی نہیں۔ جو حکمران سیلاب زدگان کیلئے خیراتی رقم کھا جائیں بھلا وہ اپنے عوام کو کیا دے سکتے ہیں۔ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث غریب لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، عوام کو مہنگائی کے جال میں اس لئے پھنسا دیا گیا ہے کہ لوٹنے والے آزادی سے لوٹ مار کریں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ع
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
ساری دنیا میں ہمارے سفارت خانے نیک نامی کی بجائے ملک کیلئے بدنامی کما رہے ہیں اس لئے کہ ان کو رسوائے زمانہ حکمرانوں نے تعینات کیا۔ انسان اور وہ بھی پاکستان کا انسان، اس وقت انسانیت کے اسفل السافلین میں غوطے کھا رہا ہے۔ عوام ناک تک تنگ آچکے ہیں مگر کوئی ایسی قیادت نہیں ابھرتی جو اس شعلے کو لے کر چلے اور ہر خوشے کو جلا کر راکھ کر دے کیونکہ ان خوشوں میں چند لوگوں کی خوشیاں اور اکثریت کیلئے کانٹے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ لکھا ہوا موجود ہے۔ قرارداد مقاصد میناروں پر کندہ ہیں مگر حکمران اس قدر گندہ ہیں کہ مجال ہے جو نظریہ پاکستان پر عمل درآمد کرائیں۔ اشرافیہ، کہنے کو پاکستانی ہے مگر اس کی دولت، بچے، جائیدادیں سب کچھ وطن سے باہر ہے۔ وہ خود اس لئے ایک بریف کیس لے کر یہاں بیٹھی ہے کہ ملک کو مزید لوٹ سکے۔ جس ملک میں چینی کی ملیں حکمرانوں، اسمبلی کے ارکان اور بڑے بڑے سیاست دانوں کی ہوں وہاں چینی کا 92 روپے فی کلو بکنا لازم ہے۔ بھلا وہ کیسے قیمتوں کو نیچے لائیں، اس طرح تو وہ خود نیچے آجائیں گے۔ وزیر خوراک کو اتنی لاج نہیں آئی کہ لوگوں سے کہہ ڈالا چینی نہیں خرید سکتے تو اس کا استعمال ترک کر دوں حالانکہ ان کی اپنی دو چینی کی ملیں ہیں! الغرض حکمران، اہل اثر اور سیاست دان ذات کے دکاندار ہیں اور عوام ان کے خریدار جبکہ باہر سمگل کرنے کا راستہ بھی کھول رکھا ہے۔ کیا پاکستان کے عوام نے یہ ملک اس لئے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا کہ وہ 100 روپے کلو چینی خریدیں؟ اقبالؒ کو زندہ کیجئے اور اس کی ایک ہی صورت ہے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یہ ملک تو قائم رہے گا مگر انقلاب کے بغیر اس کے عوام لٹتے رہیں گے، مٹتے جائیں گے اور ہم غیروں کو کیا روئیں، اندر کے میر صادق و جعفر ہی اتنے ہیں کہ باہر کے دشمنوں کو آسانی ہو گئی ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو اس سرزمین کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ہماری جگہ کوئی اور قوم ہوتی تو وہ حکمرانوں کو سیدھا کر دیتی یا ان سے جان عچھڑانے کیلئے وہ تو کجا ان کی نرسری بھی ختم کر دیتی۔