بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے‘ جب سیاسی گھڑمس مچتا ہے تو جو خیر کی قوتیں ہوتی ہیں‘ ان کا جذبہ¿ عافیت بھی متنازعہ ہو جاتا ہے۔ آج کے سیاسی افق پر سرخی کے بجائے گھنٹیاں آویزاں نظر آتی ہیں۔ قانون اور آئین کی بالادستی میں اتنا زور ہے کہ یہ خدشات و خطرات سے نمٹ سکتی ہے۔ ملکی سطح پر انتخابی مقابلے کے بجائے شہروں کی سطح پر پنجہ آزمائی دکھائی دیتی ہے‘ جیسے قرآن حکیم موجود ہے‘ اس پر عملدرآمد ندارد۔ اسی طرح جمہوریت لفظی حد تک ہر جگہ زبان زد ہے‘ مگر عمل زد نہیں۔ ایسے میں ایک ہی حل ہے کہ ملک کے بہی خواہ چاہے وہ افراد ہوں یا ادارے‘ یکجا یک آواز اور ہمقدم ہو جائیں اور تطہیر و تذکیہ شروع کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی مطلع صاف نہ ہو۔ آج اندرونی کمزوری ہی کی وجہ سے آس پاس کے نتھو خیرے وجودِ پاکستان کے مٹانے کی سازش کر رہے ہیں۔ جب ایک ہی گھر کے کئی نام رکھ دیئے جاتے ہیں تو اسکے باسی بے گھر اور بے ننگ و نام ہو جاتے ہیں۔ مگر ذاتی اغراض‘ مفادات‘ ضدبازیاں‘ اکڑفوں ہے کہ ان میں بھی دراڑیں ہیں جو ایک تھے اور ایک ہونے چاہئیں تھے‘ بیرونی سازشیں‘ ایجنسیاں اور انکے وہ کارندے جو محرومی کے باعث پیٹ بھرنے کیلئے وطن برباد کرنے کو تیار ہیں وہ ہمارے اپنے ہی ہیں۔ ہر شخص کے لہجے میں ایک منفی ردعمل جھلکنے لگا ہے‘ گویا آیات بھی برہم لہجے میں تلاوت کی جا رہی ہیں۔ نیکی حلقوم سے نیچے نہیںجا رہی اور شر رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے۔ جمہوریت آئی بھی لیکن جیسے اپنا مذاق اڑانے کیلئے اور سیاسی مسخرے اس کا چہرہ اس طرح مسخ کر چکے ہیں کہ پہچانا نہیں جاتا البتہ یہ مسخرے ضرور پہچانے جاتے ہیں جنہیں قانون گرفت میں لے بھی آئے تو وہ رسہ تڑوائے پھرتے ہیں۔ رٹ آف گورنمنٹ خود حکومتی عناصر کیلئے ہے لیکن سماجی و شہری زندگی میں اس کا گزر نہیں۔ عدلیہ کا مقام اور اسکے فیصلوں کا تقدس باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ اگر آج عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہو تو سب سے پہلے عملدرآمد کرانیوالے زد میں آتے ہیں۔ کئی لوگ اس سوچ میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ عہد نبوی قائم کیا جائے جبکہ یہاں تو عہد ہلاکو و چنگیز سے بھی بدتر حالت ہے۔ سیاسی بدحالی کو مالی بدحالی ہی درست کر سکتی ہے مگر عام لوگوں کا شاید ارادہ نہیں کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال اپنے ضمیر اور ملکی حالات کے مطابق کریں۔ اس وقت جو صورتحال نظر آرہی ہے‘ اس میں خطرے کی گھنٹیاں بھی بج رہی ہیں اور خیر کی خبر بھی مل رہی ہے۔ دیکئھے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی قوت بہتری پر متحد ہونا ہے‘ باقی ساری قوتیں اسکے تحت کام کرتی ہیں۔ مگر جب شر کے گرد جمگھٹا لگا ہو تو کیسے بہتر ماحول اور اصلاح احوال کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جو قوتیں قرآن و سنت کو جانتی تک نہیں‘ ان کا عمل قرآن و سنت کے مطابق ہے اور جو اسکے پابند کلمہ گو ہیں‘ وہ قرآن و سنت سے اتنے دور چلے گئے ہیں کہ اب انکی واپسی کے بظاہر امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ لوگ بہرصورت انتخابات بروقت کرانے کا مطالبہ کریں اور کوشش بھی کریں کہ طاقت کا سرچشمہ ہی عوام ہیں‘ سب سے بڑا ادارہ بھی عوام ہیں۔ باقی سب ادارے انکے خراج سے چلتے ہیں۔ چیف جسٹس اور چیف آف آرمی کے بیانات میں ایک ٹکراﺅ نظر آتا ہے۔ یہ باعث خیر بھی ہو سکتا ہے اور کوئی اور رخ بھی اختیار کر سکتا ہے جو ذمہ داران سپریم کورٹ کے اندر سر جھکائے کھڑے ہوتے ہیں‘ وہ باہر آکر توہین عدالت کے کھمبے پر چڑھ جاتے ہیں۔ شاید ہمارے تمام اہم اداروں اور انکے ذمہ داران کو پہلی بار عدلیہ فعال نظر آئی ہے۔ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے لیکن اس میں وائرس داخل کرنے والے کم نہیں۔ اگر جمہوریت غلط انداز میں چلائی جاتی رہی اور اسکے ذریعے استحصال کیا جاتا رہا یا اسے اپنے مطابق ڈھال لیا گیا تو پھر آمریت و جمہوریت میں تو گویا لفظی فرق رہ گیا۔ اگر جمہوریت اپنی حقیقی روح کے ساتھ کتنے ہی برے ماحول میں چلتی رہے اور کوئی اس میں رخنہ نہ ڈالے تو اس کا تسلسل بتدریج خرابیاں دور کر دے گا اور اچھی قیادت بھی سامنے لائے گا۔
ملک میں تناﺅ کی کیفیت اور سوال و جواب کے انداز میں بیانات حالات میں اوربگاڑ پیدا کرینگے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ پہلی بار عدلیہ اتنی فعال ہوئی ہے تو آرمی چیف اور صدر گرامی قدر کو بھی عجیب سا لگ رہا ہے۔ شاید سپریم کورٹ کی سپرمیسی برداشت کرنے کی عادت ہی نہیں رہی لیکن اب رفتہ رفتہ عدلیہ کی عظمت بھی اپنے پاﺅں جمالے گی اور باقی تمام اداروں کی نہ صرف شین قاف درست ہو جائیگی بلکہ عدالت عظمیٰ کے قانون و آئینی لہجے سے بھی مانوس ہو جائیگی۔ عدالت عظمیٰ کو بھی توقع ہے پورا احساس ہے کہ ٹکراﺅ قومی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ آرمی چیف سرحدوں کے رکھوالے ہیں‘ انکی بات کو بھی وزن دینا ضروری ہے۔ بعض ایسے عناصر اندرون ملک موجود ہیں کہ فوج عدلیہ تصادم کی فضا پیدا کی جائے اور وہ اپنے تئیں کامیاب نظر آنے لگے ہیں لیکن چیف جسٹس اور آرمی چیف اس تہہ در تہہ سازش کا بھی لحاظ رکھ کر قدم سے قدم ملا کر چلیں گے تو یہ خطرے کی گھنٹیاں خاموش ہو جائیں گی۔ مفاد پرست ٹولے سرگرم عمل ہیں‘ بیرونی خفیہ ایجنسیاں بھی برسرکار ہیں‘ ایسے میں فوج اور عدلیہ جیسے دونوں محترم اداروں سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ مشتری ہوشیار باش!
کیا کوئی گھنٹی بجنے والی ہے؟
Nov 07, 2012