بھارت چت ہو گیا‘ پاکستان نے ایشیا کبڈی ٹورنامنٹ جیت لیا۔ 31 مقابلے میں 40 پوائنٹس سے فاتح قرار دیا۔
بھارت کبڈی میں پٹ گیا‘ وہ بھی پاکستان کے ہاتھوں‘ اس کیلئے ہم شیوسینا سے تعزیت گزار ہیں۔ بہرحال بھارت مزید تیاری کرے کہ دونوں ہمسایوں میں کبڈی کبڈی تو ہوتی رہنی ہے‘ اور یہ جیتنی بھی پاکستان نے ہے کیونکہ کبڈی کی اقسام ہی بہت ہیں۔ بھارت اپنی تمام اقسام کی کبڈیوں کی خبر لے لے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوہا ہی لوہا رہ جائے اور کبڈی کبڈی کی آواز اٹوٹ انگ سے ٹکرا جائے۔
ہم اپنی قومی کبڈی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ ایشیا کبڈی ٹورنامنٹ جیت گئی اور کرکٹ کے گونگلوﺅں سے مٹی جھڑ گئی۔ کبڈی جی داروں اور شیرجوانوں کا کھیل ہے‘ اس پر کوئی خرچہ نہیں آتا البتہ کھلاڑیوں کے وٹامنز پورے رکھنے ضروری ہیں اور اس کیلئے وزارت کھیل سے کچھ بچ رہا ہو تو کبڈی اور ہاکی کے کھلاڑیوں پر خرچ کرے۔
یہ فتح بہت بڑی جیت ہے‘ کھیل کے میدان کی فتوحات دوسرے میدانوں کے مورال کو بھی بلند کرتی ہیں۔ پاکستان میں جہلم‘ میانوالی جیسے علاقے کے جوان شمشاد قد اور مردانِ آہن ہوتے ہیں۔ انتخابات میں ان علاقوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔
کھلاڑی تلاش کرنے پڑتے ہیں‘ مگر اب کھلاڑی سلیکٹرز کو تلاش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ایوان صدر میں جو کبڈی کبڈی ہو رہی ہے‘ وہ بھی اب کھلے میدان میں ہو‘ تاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی عمل ہو۔ کبڈی کی حوصلہ افزائی سے قومی صحت اچھی ہو گی اور سیاسی کبڈی کو بھی افاقہ ہو گا۔
٭....٭....٭....٭
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے‘ پاکستان اور بھارت کو معاشی ترقی کی جنگ شروع کرنا ہو گی‘ پانی‘ کشمیر اور دیگر تنازعات کا حل صرف مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔
65 برس گزر گئے اور شہباز کی پرواز ابھی مذاکرات کی فرضی فضا میں جاری ہے۔ معاشی جنگ تو تب شروع ہو گی جب پانی‘ کشمیر اور دیگر تنازعات ختم ہونگے اور اس کیلئے میاں صاحب لاکھ مذاکرات کی چادر میں لپٹی جنگ کو چھپائیں‘ وہ ایک روز اس چادرِ بے کار کے چیتھڑے اڑا کر باہر نکلے گی تب وہ تمام معاشی ترقیاں بھی باہر نکل آئیں گی جو اب تک پوشیدہ ہیں۔
مذاکرات مذاکرات کھیلتے ایک زمانہ گزار دیا اور میاں صاحب اب بھی ان میں سے تاجرانہ سیاست کشید کر رہے ہیں۔ گویا....ع
”مذاق رات“ ڈھل گئی
غبار دیکھتے رہے‘ کشمیر آزاد ہو گا‘ پانی واگزار ہو گا‘ تب جا کر دونوں ملکوں میں معاشی جنگ شروع ہو گی۔ ابھی تو جنگ یکطرفہ ہے‘ کیونکہ پہلے ہی بھارت سے تجارت میں اربوں کھربوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں‘ کیا ایسی معاشی جنگ لڑنے کا شوق ہے جس میں چونچ دم دونوں گنوا بیٹھے۔
کشمیر کی آزادی کی جنگ جیتے بغیر معاشی تجارتی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ کوئی ہمارے گھر کے ایک حصے پر قبضہ کرلے اور ہم اسکے ساتھ معاشی جنگ لڑیں۔ یہ معاشی نہیں عیاشی جنگ ہو گی۔
شہباز پنجاب تو خود کشمیری ہیں‘ کیا وہ بھی چناروں‘ آبشاروں اور اپنے کشمیری بھائیوں کے بڑھتے ہوئے قبرستانوں کو بھول گئے۔ آزادی کشمیر کے بعد معاشی جنگ اور پھر رنگ ہی رنگ‘ کیا یہ شیڈول اچھا نہیں؟
٭....٭....٭....٭
بال ٹھاکرے نے کہا ہے‘ پاکستان کو بھارت میں کرکٹ نہیں کھیلنے دینگے‘ بال ٹھاکرے نے میچ روکنے کیلئے اپنی جماعت کے کارکنوں کو تیاری کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
وبال ٹھاکرے کے ٹوکرے میں پھر ابال آیا ہے‘ آخر اس باسی کڑھی کو کب تک وہ ابالتے رہیں گے اور پاکستان کیخلاف کیچڑ اچھالتے رہیں گے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ اس کانگڑی دیوانے کو مستقل لگام کیوں نہیں دیتا۔
اگر پاکستان کو بھارت کی ایک انتہا پسند جماعت کی طرف سے یہ کرکٹ دشمن بیانات موصول ہو رہے ہیں تو ہم بھارت میں کرکٹ ٹیم کو خطرے میں ڈالنے پر کیوں راضی ہیں کہ یہ بھی ڈومور میں شامل ہے؟
بھارتی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین راجیو شکلا نے بال ٹھاکرے کو جواب دیا ہے کہ یہ سیریز ہو کر رہے گی‘ وبال اب کہیں اور جا کر ٹھاکرے۔ پاکستانی ٹیم کو اب بھارتی ٹیم کو دعوت دینی چاہیے‘ وہ آتی نہیں اور یہ جانے سے باز نہیں آتی‘ آخر ماجرا کیا ہے؟ وہ بھی آئے یہاں تو کوئی بال ٹھاکرے نہیں۔ یہ بال بھاکرے کا وبال جان بوجھ کر بھارتی نیتاﺅں نے پال رکھا ہے‘ وگرنہ یہ بھارت کے قومی مفادات کیخلاف جنگ کی پاداش میں اندر ہوتا۔
اگر پاکستان نے ضرور پیار کی پینگیں بھارتی شاخوں پر ڈالنی ہیں تو بال ٹھاکرے کو سیریز کے خاتمے تک باندھ کر رکھنے کی شرط لگا دے۔ بھارت پاکستان سے نفرت اور پاکستانی حکومت بھارت سے رسوائیاں وصول کرنے کا کیوں پابند ہے‘ یہ منطق سمجھ سے باہر ہے۔
آخر کیوں بھارتی حکومت شیوسینا جیسی انتہا پسند جماعت پر پابندی نہیں لگاتی؟ ایسی کئی انتہا پسند جماعتیں بھارت میں موجود ہیں‘ امریکہ بھارت سے کیوں ان کو رسی ڈالنے کی بات نہیں کرتا۔
٭....٭....٭....٭