اوباما ‘ رومنی میں سخت مقابلہ‘ فتح شکست کا دارومدار 10 ریاستوں پر

واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) امریکہ میں نیا صدر منتخب کرنے کے لئے پولنگ جاری ہے، ابتدائی نتائج کے مطابق صدر اوباما کو رومنی پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔ امریکی صدارتی انتخاب کے سلسلے میں ووٹنگ کا آغاز ریاست نیو ہمپشائر کے قصبے ڈکسن ول ناچ سے مقامی وقت کے مطابق رات بارہ بجے کے بعد ہوا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق دس ووٹ ڈالے گئے جن میں سے پانچ ووٹ صدر اوباما اور پانچ ہی مٹ رومنی کو ملے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دونوں امیدواروں کو برابر ووٹ ملے ہوں لیکن نیو ہمپشائر میں ہی واقع ”ہارٹس لوکیشن“ میں ووٹنگ میں صدر اوباما کو برتری حاصل ہو گئی۔ اوباما کو تئیس جبکہ رومنی کو نو ووٹ ملے۔ ریاست انڈیانا کے شہر انڈیانا پولس اور نیوجرسی میں ”ارلی ووٹنگ“ کے تحت لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اری ووٹنگ میں حالیہ انتخابات میں گذشتہ انتخابات کی نسبت کم لوگ ووٹ ڈالنے آئے۔ انتخابات میں سوٹنگ ریاستوں کے پری پولز میں بھی اوباما کو بیشتر ریاستوں میں برتری حاصل ہے۔ عالمی خبررساں ایجنسی کے پری پولز کے مطابق اہم ترین امریکی ریاست اوہائیو میں صدر اوباما کو 50 فیصد اور مٹ رومنی کو 46 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے تاہم فلوریڈا میں دونوں امیدواروں میں سخت مقابلہ ہے۔ یہاں مٹ ر ومنی کو ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے۔ کولوراڈو میں مٹ رومنی کو صدر اوباما پر ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے تاہم و رجینیا اور اوہائیو میں اوباما کو واضح برتری حاصل ہے۔ سفید فام امریکی اور یہودی کمیونٹی رومنی کی حمائتی ہے جبکہ انتخابی دھاندلی کے پیش نظر پنسلوانیا میں خراب ووٹنگ مشینیں ہٹا لی گئیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق اوباما کو ڈالے جانے والے ووٹ رومنی کے حق میں جا رہے تھے۔ ووٹنگ مشین کی خرابی کے خلاف ڈیموکریٹ ووٹروں نے عدالت سے رجوع کا اعلان کر دیا۔ الیکشن کمشن حکام ووٹروں کی شکایات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ ووٹروں کے ووٹنگ مشین میں خرابی کی ویڈیو بھی بنا لی۔ ویڈیو کے ذریعے دھاندلی کی حقیقت کا جائزہ لیا جائے گا۔ صدارتی الیکشن میں امریکیوں نے جوش و خروش سے ووٹ کاسٹ کئے۔ نیویارک سمیت سمندری طوفان سے متاثرہ ریاستوں میں ٹینٹوں میں پولنگ ہوئی۔ طوفان کی تباہ کاریوں سے متاثرہ علاقوں میں سخت سردی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ بہت سے علاقوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث لوگ بیٹریوں سے جلنے والی لیمپ کی روشنی میں ووٹ کاسٹ کرتے رہے۔ ابتدائی چار گھنٹوں میں ٹرن آ¶ٹ اوسط درجے پر رہا۔ امریکی صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ری پلیکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کی اہلیہ این رومنی نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا ہے۔ صدر بارک اوباما پیشگی ووٹنگ میں اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔ امریکی ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے کہا ہے کہ اہم ریاستوں میں کامیابی کے لئے پرامید ہوں، ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد صحافیوں سے مختصر مکالمہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ریاست اوہائیو کے نتائج سے متعلق پرامید ہوں۔ صحافیوں نے رومنی سے پوچھا آپ نے ووٹ کس کو دیا؟ جس پر مٹ رومنی نے جواب دیا آپ بخوبی جانتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے مطابق قومی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے یہ بالکل برابر کا مقابلہ ہے۔ یہی وجہ ہے آخری لمحوں میں دونوں امیدواروں نے ان چند ریاستوں کے کئی دورے کئے جن کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ انتخاب میں شکست و فتح کا دارومدار ان ریاستوں کے نتائج پر ہو گا۔ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے آخری دنوں میں کافی وقت وسط مغربی ریاست اوہائیو میں صرف کیا۔ انہوں نے کہا ”یہ محض دو امیدواروں یا دو پارٹیوں میں سے کسی ایک کو چننے کا معاملہ نہیں، یہ امریکہ کے بارے میں دو مختلف تصورات میں سے کسی ایک تصور کے انتخاب کا سوال ہے۔“ ریپبلکن مٹ رومنی نے بالکل آخری وقت میں ریاست پینسلوینیا کا دورہ کیا۔ عام طور سے یہ ریاست ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی ہے لیکن حالیہ جائزوں سے پتہ چلا ہے دونوں پارٹیوں کی مقبولیت کے درمیان فرق کم ہو گیا ہے۔ مٹ رومنی نے کہا ”اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے اچھی ملازمتیں اور اچھی تنخواہیں ماضی کی کہانیاں بن گئی ہیں تو ان کے لئے میرے پاس واضح پیغام ہے۔ اگر قیادت صحیح ہو، تو امریکہ پھر زور و شور سے پرانی ڈگر پر واپس آ جائے گا“۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں 50 میں سے تقریباً 40 ریاستیں ایسی ہیں جن کا جھکاو¿ کسی ایک امیدوار کی طرف ہوتا ہے۔ اس طرح 10 کے لگ بھگ ریاستیں بچتی ہیں جو کسی کی بھی طرف جا سکتی ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم پورے زور سے جاری رہی۔ انتخابی مہم کے آخر میں جن ریاستوں کو سب سے زیادہ توجہ دی گئی ان میں اوہائیو، ورجینیا، کولوراڈو، آیووا، نیو ہمپشائر اور وسکانسن شامل ہیں۔ کہنہ مشق سیاسی مبصر ٹام ڈی فرینک کہتے ہیں کہ بہت سی ایسی ریاستوں میں جن کا جھکاو¿ کسی کی بھی طرف ہو سکتا ہے، صدر کو بہت معمولی سی سبقت حاصل ہے۔ دونوں امیدواروں کے درمیان اس مقابلے میں فرق اس وقت سے کم ہونا شروع ہوا جب اکتوبر کے شروع میں پہلے مباحثے میں مسٹر رومنی نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں امریکہ کے مشرقی ساحل پر گذشتہ ہفتے کے سمندری طوفان سینڈی کے بعد صدر نے وفاقی حکومت کی امدادی کارروائیوں کو جس طرح منظم کیا اور نشریاتی اداروں نے اسے جس طرح کور کیا، اس سے صدر کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی بے روزگاری کی آخری رپورٹ کے مطابق، توقع سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا۔ یونیورسٹی آف ورجینیا کے سینٹر آف پولیٹکس کے ڈائریکٹر لیری سباتو کہتے ہیں ”جب کسی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ ہو تو آپ ہمیشہ آخری ہفتے پر نظر ڈالتے ہیں جس سے امیدوار کو فاضل مدد مل سکتی ہے۔ سمندری طوفان سینڈی اور روزگار کے مواقع کی جو رپورٹ آئی ان سے صدر اوباما کو فاضل مدد ملی“ لیکن بہت سے ماہرین کہتے ہیں جیت کسی کی بھی ہو ملک مستقبل قریب میں بٹا رہے گا۔ صدارتی انتخاب کے علاوہ ایوانِ نمائندگان کی تمام 435 نشستوں، نیز سینٹ کی 100 میں سے 33 نشستوں پر انتخاب ہو گا۔ توقع ہے ریپبلکنز ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت بر قرار رکھیں گے، اگرچہ ممکن ہے ڈیموکریٹس کو چند مزید نشستیں مل جائیں لیکن بیشتر تجزیہ کاروں کو توقع ہے ریپبلکنز سینٹ میں اکثریت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ سینٹ میں ڈیموکریٹس کو ریپبلکنز کی 47 نشتوں کے مقابلے میں 53 نشستیں حاصل ہیں۔

ای پیپر دی نیشن