تحریر: میاں طارق مصباح
دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نِت نئی منازل طے کرتے جارہے ہیں جسے دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب وہاں ڈھونڈے سے بھی کوئی ایک مسئلہ تک نہیں ملے گا لیکن ہمارے ملک میں صورتحال اِس کے بالکل اُلٹ ہے، جوں جوں وقت بیت رہا ہے نہ صرف پہلے مسائل شدت اختیار کررہے ہیں بلکہ آئے روز نئے سے نیا مسئلہ جنم لے رہا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری کمزور معاشی حالت ہے جس کی وجہ سے برسرِاقتدار آنے والی حکومتوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے رجوع کرنا پڑتا ہے، قرضوں کے عوض اُن کی کڑی شرائط ماننی پڑتی ہیں، بجلی پٹرول گیس کی قیمتیں بڑھانا پڑتی ہیں ، قوم کو توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اندرونی انتشار پیدا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی قوتیں اپنا غلام سمجھ کر احکامات صادر کرتی ہیں ۔یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر معاشی حالت مستحکم ہو تو پھر دیگر بہت سے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے ۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے آتے ہی سنجیدگی سے بحران پر قابو پانے کے لیے بجلی و گیس چوری اور سرکلر ڈیبٹ جیسے مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی جن کے اچھے نتائج برآمد ہوئے مگر ہنوز دِلّی دور است ۔ حکومت نے اپنے ابتدائی دنوں میں ہی اعلان کردیا تھا کہ مہنگے فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو کوئلے پر تبدیل کیا جائے گا ، شنید ہے کہ یہ اعلان صرف اعلان کی حد تک محدود نہیں بلکہ اس منصوبے پر کام بھی ہورہا ہے لیکن ضروری ہے کہ اسے جتنی جلد ممکن ہو مکمل کیا جائے کیونکہ اس میدان میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ بجلی کی کُل پیداوار کا 80%، چین 70%اور بھارت 50%حصہ کوئلے سے پیدا کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار اِس کی مجموعی پیداوار کا بمشکل ایک فیصد کے لگ بھگ ہے حالانکہ ملک میں 185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ اس کے باوجود انتہائی مہنگے فرنس آئل پر انحصار کیا جارہا ہے جس سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت مبینہ طور پر 23روپے فی یونٹ ہے حکومت کوئلے سے توانائی کے حصول کے منصوبوں کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرے۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی صورت میں پاکستان پر ایک ایسا عذاب نازل ہے جس نے معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کیونکہ یہ ادارے ہر سال قومی خزانے سے 600ارب روپے کی خطیر رقم ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا اعلان کیا تھا لیکن پھر اس پر کیا پیش رفت ہوئی اُس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ۔ ان اداروں میں متعدد بار اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا لہذا بہتر تو یہی ہے کہ ان کی نجکاری کردی جائے ، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر کم از کم انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے بیرونی امداد کے بدلے کڑی شرائط قبول نہ کی جائیں بلکہ عالمی برادری پر زور دیا جائے کہ پاکستان کو غیرمشروط امداد دی جائے جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے تو ہمارا حال سڑک کے کنارے کھوکھا لگائے اُس دکاندار جیسا ہے جس سے خود ہی کوئی آکر خرید لے تو خرید لے ۔ بالخصوص بیرون ملک اکثر پاکستانی سفارتخانے پاکستانی مصنوعات کو متعارف کرانے اور ان کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستانی ٹریڈ مشنز کو خواب خرگوش سے بیدا ر کرے، انہیں ہدایت دے کہ وہ پاکستانی مصنوعات کو متعارف کرانے اور نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں جس سے برآمدات بڑھیں گی اور انحصار چند ممالک پر سے کم ہوگا۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی معاشی عدم استحکام کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے بالخصوص توانائی کا بحران حل اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرنا ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو آپریشن متعارف کرائے اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل تمام بیوروکریٹک رکاوٹیں دور کرے ۔ پاکستان کے معدنی وسائل معاشی استحکام میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اگر معدنی وسائل کی حقیقی مالیت کا اندازہ لگانا چاہیں تو شاید یہ ممکن نہیں ہے ۔ مختصراً یہ کہ صرف کوئلے کے ذخائر کی اندازاً مالیت 25کھرب ڈالر جبکہ کاپر اور سونے کے مجموعی ذخائر کی مالیت 10کھرب ڈالر سے زیادہ ہے ۔ اسی طرح کھربوں ڈالر کی اور بھی معدنیات موجود ہیں جن سے بھرپور فائدہ غیر ملکی کمپنیاں اٹھارہی ہیں ۔ معدنی وسائل سے حقیقی معنوں میں استفادہ میں ٹیکنالوجی کا فقدان ہمیشہ آڑے آیا ہے اور کان کنی کے شعبے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ مقامی سطح پر جدید ٹیکنالوجی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے غیرملکی کمپنیوں کو کودنے کا موقع ملتا ہے اور وہ قدرتی وسائل پر اجارہ داری قائم کرکے بیشتر فوائد خودلے جاتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں 70%سے 80%معدنیات انتہائی ارزاں داموں پر حاصل کرلیتی ہیں جبکہ ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کے معدنی وسائل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے لہذا حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہمارے وسائل ہماری ترقی و خوشحالی کے لیے استعما ل ہوں ۔