حقیقت یہ ہے کہ بربریت اور درندگی اور شیطنت و غنڈہ گردی کے اس عریاں ناچ کے مقابلے میں چنگیز و ہلاکو کے مظالم کی داستانیں بھی ہیچ نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان یا غیر ملکی اور غیر جانبدارانہ مبصرین تو الگ، ظلم و استبداد کی اس انتہا پر بعض غیر متعصب ہندو بھی چیخ اٹھنے پر مجبور ہو گئے۔ چنانچہ"کشمیر ٹائمز"کے ہندو ایڈیٹر مسٹر جے کے ریڈی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ان وحشیانہ مظالم کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"میں نے خود اپنی آنکھوں سے پاکستان کی طرف جانیوالے بے بس اور نہتے مسلمان مہاجرین کو ڈوگرہ سپاہیوں اور غندوں کے ہاتھوں گولیوں کی بوچھاڑ میں ڈھیر ہوتے دیکھا ہے۔ راج پور کے گاؤں میں، میں نے جو کچھ بھی دیکھا ، اس سے میرا اضطراب اور بھی سوا ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہاں ریاست کے بعض افسران اور فوجی حکام ایک مسلح جتھے کو مسلمان مہاجرین پر حملہ آورہونے اور اسے ختم کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ ہر جگہ میں نے یہ منظر دیکھا کہ ریاست کے افسران نہایت آزادانہ طور پر ڈوگروں کے ہاتھ اسلحہ اور بارود تقسیم کر رہے تھے"۔
مسٹر ریڈی مزید لکھتے ہیں:
"جموں کے جس ہوٹل میں ، میں قیام پزیر تھا، اس سے صرف ایک رات کو میں نے ۷۴ گاؤں جلتے دیکھے۔ ساری رات ہوٹل کے قریب مہاجر کیمپوں میں آٹومیٹک ہتھیاروں کے چلنے اور چیخوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور چاروں طرف آگ نظر آتی رہی"۔(سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور۔ 20 اکتوبر 1947ئ)
اس سلسلہ سے ایک اور ہندو مؤرخ مسٹر پریم ناتھ بزاز کی شہادت ملاحظہ ہو:
"مسلمانوں کے وحشیانہ قتل و غارت کی یہ صورتحال ریاست کے کسی ایک حصہ میں نہیں تھی بلکہ پوری ریاست اس سیلابِ ہلاکت کی لپیٹ میں تھی، اور ہندو، سکھ اور ڈوگرے پوری ریاست میں مسلمانوں کا صفایا کرنے میں مشغول تھے"۔ ممتاز اخبار" سٹیٹس مین" کے ایڈیٹر آئن سٹیفن اپنی کتاب " Horned Moon" میں لکھتے ہیں:
’’1947کی خزاں تک تقریباً 5 لاکھ مسلمانوں کی یہ آبادی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی، ان میں سے دو لاکھ کا تو بالکل نام و نشان ہی مٹ چکا تھا اور بقیہ لوگ پاکستان نے صوبہ پنجاب میں پناہ گزین ہو چکے تھے"۔
ممتازبرطانوی مصنف پروفیسرآسٹرلیمب اپنی تصنیف کرائسس ان کشمیرمیں لکھتے ہیں:
"جموں میں پنجاب سے ہندوؤں اور سکھوں کے جتھوں کے جتھے داخل ہو گئے، جنہوں نے قتل و غارت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کی آبادی دو لاکھ کی تعداد میں کم ہو گئی، ہزاروں کو قتل کر دیا گیا اور باقی لوگوں کو مغربی پنجاب میں دھکیل دیا گیا"۔
ایک چشم دید شہادت:
سید رکن عالم صاحب جو آگ اور خون کے اس سیلاب سے کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، جموں کے ایک مضافاتی گاؤں لنگر پورہ میں ڈوگرہ فوج اور پولیس کے وحشیوں کے ہاتھوں ڈھائی جانے والی قیامت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"سب سے پہلے بچے بھالوں اور کرپانوں کے ذریعے الگ کر دیئے گئے اور ان میں سے بعض کی نعشیں اٹھا کر جھاڑیوں کے اوپر پھینک دی گئیں اور کہا گیا" وہ ہے تمہارا پاکستان" اسکے بعد عورتیں بالکل برہنہ کر دی گئیں اور بالآخر جس طریقے سے قتل کی گئیں وہ حد درجہ ہولناک ہے۔ پھر مرد ذبح کئے گئے اور اس مکروہ طریقے سے کہ ایک ایک عضو کاٹا گیا اور سخت ایذا رسانی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔
دوسری عورتیں ہلاک کرنے سے قبل تین نہایت خوبصورت عورتیں الگ کر لی گئیں ، جب باقی موت کے گھاٹ اتاری جا چکیں تو گورکھا فوجی افسران کی طرف متوجہ ہوا اور ان میں سے ایک اپنے لئے چن لی اور ارادہ عصمت دری کیا۔ عورت نے شدید مزاحمت کی۔ اس پر وہ ایک درخت سے باندھ دی گئی۔ اب یہ عورت قطعاً برہنہ تھی اور بے دست و پا لیکن وہ گورکھا افسر کو برابر گالیاں دیتی رہی۔ آخر بری طرح آبرو ریزی کے بعد وہ ان وحشیوں کے ہاتھوں انسانیت سوز طریقے سے ہلاک ہو گئی"(بحوالہ خوننابہ کشمیر ۔ فضل احمد صدیقی۔ ص 106-107)
ایک خاتون کی خون آشام داستان:
اسی قیامت سے گزرنے والی ایک خاتون رحمت بی بی، جن کی عمر اس وقت بمشکل 18 برس تھی، اور جن کی شادی کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے، اپنی داستان الم بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : "مجھے اغوا کرنے کے بعد جس مکان میں محبوس کیا گیا، اس میں اٹھارہ دوسری لڑکیاں بھی تھیں۔ ایک روز چاندنی رات میں ان سب کو ایک کھلے میدان میں لے جایا گیا، وہاں ہندو اور سکھ درندوں نے انہیں اپنی اپنی پسند کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیا ۔ خود میں جس وحشی درندے کے حصے میں آئی اس کا نام گیان تھا جو ایک مدت تک مجھے اپنے جنسی تشدد کا نشانہ بنا کرمیری آبرو ریزی کرتا رہا۔ ایک دن جب گیان گھر میں نہیں تھا، مجھے معلوم ہوا کہ ریاست کا کٹھ پتلی وزیر اعظم شیخ عبداللہ اس علاقے کے دورے پر آیا ہوا ہے،میں شیخ صاحب کو "مسلمان" سمجھتے ہوئے کسی طرح بچتی بچاتی ان تک پہنچی اور ان سے التجا کی کہ آپ مسلمان ہیں، خدا اور رسول پر" ایمان " رکھتے ہیں، میں ایک مظلوم لڑکی ہوں اور ایک ظالم کے پنجے میں پھنسی ہوئی گناہ کی زندگی بسر کر رہی ہوں، خدا کیلئے مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ میری یہ بات سن کر شیخ صاحب نے کمال بے حمیتی اور سنگدلی سے کام لیتے ہوئے مجھے دھتکارا اور کہا:
"جا میری آنکھوں سے دور ہو جا، تجھ جیسی کتیاں بہت ہیں، جو آوارہ پھرتی ہیں"۔
گزشتہ سطور میں ہم نے اکتوبر اور نومبر 1947ء کے دوران میں ڈوگرہ فوج اور پولیس نیز انتہا پسند ہندو اور سکھ تنظیموں کے مسلح غنڈوں کے ہاتھوں مسلمانانِ جموں پر ڈھائی جانیوالی قیامت کے جو دلخراش مناظر مستند حوالوں کے ساتھ پیش کئے ہیں ان سے یہ بات پوری طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان درندہ صفت ظالموں نے نہ صرف یہ کہ جموں اور اسکے مضافات کے لاکھوں مسلمانوں کو نیست و نابود کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے حد درجہ بربریت اور درندگی سے کام لیتے ہوئے اس علاقے میں اسلام کی ہزاروں لاکھوں بیٹیوں کی عزتوںکو بھی سرِ عام لوٹا اور پھر شیطنیت کا یہ کھیل کوئی ایک دو دن نہیں بلکہ کئی ماہ تک خود حکومت کی سرپرستی میں کھیلا جاتا رہا۔ اور اعتبار سے مسلمانانِ جموں کا یہ وحشیانہ اور سفاکانہ قتل ِ عام ظلم و استبداد اور بربریت و درندگی کی تاریخ میں ایک ایسے باب کے اضافے کی حیثیت رکھتا ہے جو حد درجہ المناک بھی ہے اور شرمناک بھی، کربناک بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ اس میں ہمارے لئے عبرت بھی ہے اور موعظت بھی ،اور اس سے بھی بڑھ کر یہ المیہ جاں گداز اپنے اندر ہمارے لئے بے شمار پہلوؤں سے ایک لمحہ فکریہ بھی رکھتا ہے۔ (ختم شد)