بانیانِ پاکستان سے عقیدت رکھنے والے قارئین کیلئے یہ اَمر باعث اطمینان ہے کہ مورخہ 3 نومبر 2013 کو اپنے کالم " صبح بخیر " میں تاریخی مغالطے کے عنوان سے سنیئر کالم و تجزیہ نگار محترم صفدر محمود صاحب جنہیں میں اپنے دل کی گہرائیوں سے اُستاد کے درجے میں جگہ دیتا ہوں ، نے جموں وکشمیر کے حوالے سے سردار شوکت حیات کی کتاب کے مندرجات میں جناب شہید ملت لیاقت علی خان کی ذات پر اُچھالی گئی کیچڑ کو تاریخی حوالے سے بخوبی صاف کیا ہے ۔راقم نے اِسی حوالے سے 31 اکتوبر 2013 کے نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے کالم آتش گل میں بانیانِ پاکستان کے خلاف متنازعہ تحریروں کے حوالے سے گفتگو کی تھی جس پر مجھے تحریکِ پاکستان سے دلچسپی اور نظریۂ پاکستان میں یقین رکھنے والے بہت سے قارئین کی آراء موصول ہوئی ہیں جن میں آج کے محترم لکھایوں اور کالم نگاروں سے کم و بیش یہی درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں قومی وقار کو پیش نظر رکھتے ہوئے کم از کم بانیانِ پاکستان کا تذکرہ کرتے وقت عزت و احترام کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔
شہید ملت کے حوالے سے کچھ تاریخی حقائق محترم صفدر محمود صاحب نے بخوبی بیان کر دئیے ہیں چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عوام الناس میں اندرونی و بیرونی ذرائع سے پھیلائی جانے ڈِس انفارمیشن سے آگہی کیلئے تاریخی حقائق کا جاننا بھی ضروری ہے ۔ ریاستی سطح پر مسئلہ کشمیر گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح اور وزیراعظم لیاقت علی خان کیلئے انتہائی اہم تھا۔ ماضی کے تلخ ترین حالات کے باوجود یہ بانیانِ پاکستان کی جدوجہد کا ہی ثمر تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی منظم سازشوں کے باوجود آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے آزاد ہوئے اور اقوام متحدہ میں کشمیر پر بھارت کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ کشمیر کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا یہ حق کشمیری عوام کو دیا گیا ۔ بھارتی مورخ اور تجزیہ نگار ، ایچ ایم سیروائی، تقسیم ہند کے موقع پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی سیاسی بددیانتی کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتے کہ فلپ ذیگلر کی کتاب مائونٹ بیٹن اور ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کی اہم برطانوی دستاویزات کی بارہویں جلد کی اشاعت نے کیریکٹر ، کنڈکٹ اور وائسرائے کی حیثیت سے مائونٹ بیٹن کی پوزیشن کو بہت نیچے گرا دیا ہے ۔ اُنہوں نے لکھا کہ اُن کے خیال میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی وائسرائے شپ کے آخری پانچ دن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ بدنامی اُن کا مقدر ہوگی اور تاریخ اُن کیلئے سزائے موت ہی لکھے گی۔ سیروائی نے اِن خیالات کا اظہار مائونٹ بیٹن کے ریڈ کلف ایوارڈ پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے کیا ہے جس کے سبب بھارت کی کشمیر تک رسائی ممکن ہوئی جبکہ مائونٹ بیٹن نے کشمیر کے بھارت سے عارضی الحاق کے حوالے سے بھارت کے گورنر جنرل کی حیثیت سے جو منفی کردار ادا کیا ،اُسے بھی تاریخ میں بھلایا نہیں جائیگا ۔
درج بالا تناظر میں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ مائونٹ بیٹن نے 26 اکتوبر 1947 میں گورنر جنرل بھارت کی حیثیت سے مہاراجہ کشمیر کی متنازعہ عارضی الحاق کی دستاویز کو تسلیم کرنے کے بعد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام سے دنیا بھر میں بھارت کی جو رسوائی ہوئی اُسے ڈِس انفارمیشن کے ذریعے روکنے کیلئے جواہر لال نہرو نے 31اکتوبر 1947 میں ایک ٹیلی گرام کے ذریعے وزیراعظم لیاقت علی خان کو مطلع کیا کہ جونہی کشمیر میں امن قائم ہوگا بھارتی فوجیں کشمیر سے واپس بلا لی جائیں گی اور کشمیری عوام کو استصواب رائے کا موقع دیا جائیگا ۔اِسی نوعیت کے خیالات کا اظہار بھارتی وزیراعظم جواہر لال نے 2 نومبر 1947 کو آل انڈیا ریڈیو کی ایک براڈکاسٹ میں کیا لیکن قائداعظم نہرو کی چناکیہ صفت کو سمجھتے تھے لہذا اُنہوں نے نہرو کے 31 اکتوبر کے ٹیلی گرام کے مندرجات کے پیش نظر یکم نومبر کو لاہور میں مائونٹ بیٹن سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے فکر و دانش کے حوالے سے ایک اہم تین نکاتی تجویز پیش کی۔ (1) دونوں ملکوں کے گورنر جنرل ایک مشترکہ اعلامیہ میں دونوں متحارب قوتوں (بھاتی فوج اور قبائلیوں) کو 48 گھنٹوں میں جنگ بندی کا نوٹس دیںاور قبائلیوں کو وارننگ دی جائے کہ اگر وہ حکم عدولی کرتے ہیں تو پھر دونوں ملکوں کی فوجیں اُس سے جنگ کریں گی۔ (2)کشمیر سے بھارتی فوجیں اور قبائلی لشکر بیک وقت واپسی اختیار کریں گے ۔ (3) دونوں گورنر جنرلوں کو امن قائم کرنے ، ریاست کا انتظام چلانے اور استصواب کا مکمل اختیار دیا جائیگا لیکن مائونٹ بیٹن اور نہرو نے اِن امن تجاویز کو ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں قائداعظم نے جموں و کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام روکنے کیلئے پاکستان فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا جس کے باعث آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا تحفظ ممکن ہوا۔