پاکستانیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت میں، میں واقعتا یہ سمجھتا ہوں کہ یومِ اقبال پاکستانی قوم کا یومِ حساب ہے-آج ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم اقبال کے کتنے خواب مٹی میں ملا چکے ہیں اور اقبال کے کتنے اندیشے درست ثابت کر چکے ہیں- اقبال کا ایک سہانا خواب سلطانیٔ جمہور سے عبارت ہے- اُنھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ ہمیں خدا کا یہ فرمان سُنایا تھا:
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
گویا سلطانیٔ جمہور کی آمد اس بات سے مشروط تھی کہ ہم نقوشِ کہن کو کب اور کیسے مٹاتے ہیں؟ درج بالا شعر’’فرمانِ خدا‘‘کے عنوا ن سے اقبال کی نظم کا آخری شعر ہے-باقی ماندہ اشعار میں جہاں پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے نکال باہر کر کے خالق و مخلوق کے درمیان حائل تمام پردے اُٹھا دینے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہ تک بھی کہہ دیا گیا ہے کہ: ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی/ اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو‘‘- اپنی ایک اور نظم ’’الارض لِلٰہ‘‘ میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ زمین کا مالک اللہ ہے- کاشتکار کے زیرِکاشت زمین اللہ کی امانت ہے- جاگیردار جو دیہات کا خدا بن کے بیٹھا ہے اُس کا زمین پر قطعاً کوئی حق نہیں- میں جب بھی یہ نظم پڑھتا ہوں مجھے پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی وہ بحث یاد آ جاتی ہے جو علامہ اقبال اور اُن کے گہرے دوست میاں سرفضل حسین کے درمیان ہوئی تھی-میاں فضل حسین نے جاگیرداری کے حق میں یہ دلیل پیش کی تھی کہ پنجاب کی زمین کل مغل بادشاہوں کی ملکیت تھی اور آج تاجِ برطانیہ کی ملکیت ہے- برطانوی حکومت جس کو جتنی بھی جاگیر عطا کرے ، بر حق ہے- اِس پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ پنجاب کی زمین کے مالک پنجاب کے عوام ہیں- پنجاب کے عوام اُس وقت سے اِس زمین کے مالک ہیں جس وقت بابر اور اُس کی اولاد پیدا ہی نہ ہوئی تھی اور تاج و تختِ برطانیہ تاریخ کے اُفق پر ابھی نمودارہی نہیں ہوا تھا- اپنی شاعری میں بھی وہ اسی حقیقت کو روشن سے روشن تر کرتے رہے کہ زمین کسان کے پاس اللہ کی امانت ہے- اِس امانت کو سنبھال اور سنوار کر کسان جو کچھ پیدا کرتا ہے وہ اُس کا اپنا ہے اُس پر کسی اور کا کوئی حق نہیں- ایک اور مختصرنظم بعنوان ’’گدائی‘‘ میں اُنھوں نے سرمایہ و محنت کے اسرار و رموز کو یوں منکشف کیا ہے:
مے کدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کُلاہی نے اسے؟
کس کی عُریانی نے بخشی ہے اسے زرّیں قبا؟
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہُوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے، میر و سُلطاں سب گدا!
علامہ اقبال کو اِس امر کا یقین تھا کہ ہم جب تک نقوشِ کہن کو مٹاڈالنے کا فریضہ ادا نہیں کر پاتے تب تک سلطانیٔ جمہور کی قلمرو میں قدم نہیں رکھ سکتے- اِن نقوشِ کہن میں سے ایک شہنشاہیت کا ادارہ ہے- ہم نے دورِ جاہلیت کے اِس نقش کو مٹانے کی بجائے مزید پائیدار بنایا اور استحکام بخشا ہے- پاکستان علامہ اقبال کی فکری اور قائداعظم کی نظریاتی قیادت میں جمہوری عمل سے وجود میں آیا تھامگر یہاں جمہوریت ایک تسلسل کے ساتھ کبھی نہ پنپ سکی- جمہوریت جب بھی آتی ہے آمریت کی راہیں روشن کرنے میں مصرو ف ہو جاتی ہے-آج ہمارے ہاں ایک مرتبہ پھر جمہوری عمل کا آغاز ہوا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ نقوشِ کہن بھی نئی آب و تاب حاصل کر رہے ہیں جنہیں مٹائے بغیر جمہوری عمل مستحکم نہیں ہو سکتا- یہ نقوشِ کہن ہیں جاگیرداری اور سرداری نظام - آج پاکستان میں جمہوریت کے فروغ و استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قائدین اقبال کی فکر و نظر سے استفادہ کرتے ہوئے پاکستان میں رائج معاشی نظام کو حقیقی اسلامی انقلابی خطوط پر اُستوار کریں-
علامہ اقبال کو شروع سے ہی معاشی مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ اپنے وطن کی معاشی پسماندگی اور اُس سے پیدا ہونیوالے اخلاقی اور روحانی امراض کا جیساجیتا جاگتا احساس علامہ اقبال کے ہاں پایا جاتا ہے اُس کی مثال اُن کے عہد میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ اپنی پہلی کتاب بعنوان ’’علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچہ میں اقبال لکھتے ہیں:
’’غریبی قویٰ انسانی پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی رُوح کے مجلّا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم برابر ہو جاتا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کیلئے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا دردناک نظارہ ہمیشہ کیلئے صفحۂ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے؟‘‘
آج ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوںکو ایک نظر علامہ اقبال کی اس پہلی کتاب پر بھی ڈال لینی چاہیے۔ اقبال نے اپنی شاعری اور اپنی فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کیخلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اقبال کے تصورات کو پاکستان میں ایک عادلانہ معاشی نظام کے نفاذ کی بنیاد بنائیں۔ جب تک پاکستان میں معاشی انصاف کے اسلامی تصورات عملی طور پر نافذ نہیں کر دیے جاتے تب تک ہمارے ہاں جمہوریت کا نظام بھی اقبال کے لفظوں میں صرف ’’جمہوری تماشا‘‘ ہی بنا رہے گا۔
اقبال نے سلطانیٔ جمہورکی بشارت دیتے وقت جن نقوشِ کہن کو مٹا ڈالنے کی تلقین کی تھی وہ معاشی ظلم اور سیاسی غلامی کے ادارے ہیں- یہی وہ نقشِ کہن… پرانی نشانیاں ہیں جنہیں مٹا ڈالنے کا سبق اقبال نے پڑھایا تھا۔ جب تک ہم اقبال کے ان نظریات پر عمل کا آغاز نہیں کرتے تب تک پاکستان میں سچی جمہوریت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہی رہے گا۔