علامہ اقبال … دگر دانائے راز آید کہ نا آید

Nov 07, 2014

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک عظیم الشان فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ اللہ کے ولی تھے۔ 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسی شہر میں حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے لاہور اور بعد میں یورپ کا رُخ کیا۔ بچپن سے بلوغت تک کے سفر میں ذہن ایسے کُھلتا گیا جیسے کلی پھول بنتی ہے، ایسا پھول جس کی مہلک لازوال ہے۔ جب یہ راز آشکار ہوا کہ لڑکپن میں اُن کے ذہن میں ہندوستانی نیشنل ازم کا جو تصور تھا وہ مسلمان قوم پر صادق نہیں آتا چونکہ مسلمان تو ایک مغربی تصور کی قوم نہیں بلکہ ایک ملت ہیں جو جغرافیائی، لسانی اور معاشرتی حدود و قیود سے بالکل آزاد ہے۔ اس کا اعتراف علامہ اقبال نے 1931ء کی آخری سہ ماہی میں ممبئی میں اِن الفاظ میں کیا:
In my college days  I am a zealous Nationalist that I am not now. The change is due to a nature thinking.
قارئین ذہنی سوچ میں اس تبدیلی کی اصل وجہ علامہ اقبال کا مسلمانوں کی تاریخ، مذہب اسلام اور دینِ محمدیؐ کا گہرا مطالعہ تھی۔ مومن کی عظمت کے بھیدوں کو سمجھنے کے بعد ہی انہوں نے فرمایا تھا کہ  ؎
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قارئین ویسے تو علامہ اقبال نے پاکستان کا باقاعدہ تصور 29 دسمبر 1930ء کو الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے پیش کیا تھا لیکن وہ مسلمانوں کے الگ تشخص پر پچھلے تقریباً 25 سال سے کام کر رہے تھے۔ ملتِ اسلامیہ کا تصور دیتے ہوئے انہوں نے بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی کہہ دیا تھا  ؎
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
علامہ اقبال کو اپنے دین پر بے پناہ فخر تھا۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ اور اسلام کی اس سوچ کا بڑے فخر سے ذکر فرماتے جو حجاز یا عرب سرزمین سے اُبھری اور بہت کم وقت میں دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنے نور سے منور کر گئی۔ علامہ اقبال ’’شکوہ‘‘ میں فرماتے ہیں  ؎
عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا لَے تو حجازی ہے مری
یعنی اگر جام سب سے پہلے میدان میں بنا تو اس کے اندر ڈالنے والی مے تو سب سے پہلے عرب میں تیار ہوئی۔ اسی طرح اگر ہندوستان نے نغمہ لکھ لیا تو کوئی بات نہیں اس گیت کی لَے تو عربی ہی ہے جو میری ہے۔ علامہ اقبال کے مسلمانوں کیلئے الگ تشخص کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے قائداعظم نے 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارے ہندو دوست یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ہندوازم اور اسلام محض مذاہب کا نام نہیں بلکہ یہ دو مختلف سماجوں کا اظہار ہے، یہ تصور کہ ہندو اور مسلمان ایک قومیت میں ضم ہو سکتے ہیں ایک خواب  ہی ہے۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ رشتے کر سکتے ہیں نہ اکٹھا کھا پی سکتے ہیں۔‘‘
علامہ اقبال سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے بھی سخت مخالف تھے چونکہ اس سے غربت کو کم نہیں کیا جا سکتا بلکہ غریب اور امیر میں فاصلے بہت بڑھ جاتے ہیں۔ 28 مئی 1937ء میں لکھے گئے اپنے ایک خط میں علامہ نے فرمایا :۔’’ خوراک کا مسئلہ گھمبیر ہو رہا ہے، ہمیں مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو حل کرنا ہو گا اور میرے خیال میں اگراسالامی قوانین (شریعت )کو سمجھ کر صحیح طرح سے لاگو کیا جائے تو پھر زندہ رہنے کیلئے ہر کسی کی خوراک کی ضرورت پورا کرنے کے حق کا تحفظ ہو سکتا ہے۔‘‘ اسی لئے علامہ نے  فرمایا تھا کہ ؎
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں
یعنی اہل ایمان کواکٹھا ہوناچاہئے بالکل اسی طرح جیسے آسمان پر چمکتے ستاروں میں ایک باہمی جذبہ نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال  مغربی تہذیب کے خلاف تھے اور فرماتے تھے ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
 نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سُنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ یعنی انسان کے اندر سے تبدیلی ہو گی تو مسلمان پھرمسلمان کہلانے کا حقدار ہو گا۔ زبان سے جو مرضی ہے کہتے رہیں دل و نگاہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے یہی بات علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کہی  ؎
خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اسی مفہوم کو اس طرح بھی پیش کیا کہ  ؎
کافر ہے مسلمان تو شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
سائنسدان اپنی تحقیق اس پر مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ انسان کو ابتدا کیسے ہوئے، علامہ اقبال فرماتے ہیں میرے لئے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں میں تو اپنی آخرت سے متعلق فکر مند ہوں فرمایا ہے  ؎
خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
علامہ اقبال اظہار خیال کے بالکل مخالف نہ تھے بلکہ وہ خود ایسا ایسا کلام تخلیق کر کے پیش کرتے تھے جو انگریز حکمرانوں کو چونکا کر رکھ دیتا تھا لیکن وہ اس بات کی تلقین بار بار کرتے تھے کہ صرف اس سوچ کا اظہار ہو جس کی بنیاد فکر و تدبر پر ہو ورنہ اگر آپ کی سوچ ناپختہ ہے اور آپ میڈیا کی آزادی کی آڑ میں ملک و قوم کے مفادات کے خلاف ہرزہ سرائی اور دوسروں پر یکطرفہ تہمتیں لگائیں گے تو نتیجے میں تباہی آئیگی اور انسانیت اور حیوانیت کا فرق مٹ جائیگا، انہوں نے فرمایا  ؎
آزادی انکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
علامہ اقبال مال و دولت کی ہوس سے پاک تھے ان کے خیال میں محنت کر کے رقم ضرور کمائی جائے لیکن زر سے پیار کرنے والے خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ دولت کا نہ ہونا یا بے زری تھی اس وقت عرب ممالک میں تیل کے کنوئوں کا دور دور تک کوئی نشان نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اس کو یکسر رد کیا اور فرمایا  ؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
گر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوا
 قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیائی ریاستوں کے دولت مند ممالک کی آج بے کسی دیکھ کر علامہ اقبال کی یہ بات  درست ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمان قوموں کی ترقی کی ضامن زر نہیں بلکہ عدل و انصاف، جذبہ ایمانی، خوداری اور انسان دوستی ہے۔ آج سے تقریبا 100 سال قبل علامہ اقبال کو فرقہ واریت کی لعنت اور ذاتوں اور برادریوں سے پیدا ہونے والی گروہ بندیوں سے معاشروں میں جنم لینے والے اندوہناک فسادات کا ادرک تھا اس لئے انہوں نے فرمایا  ؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
مسلمان کی یکجہتی اور اتحاد پر زور دیتے ہوئے فرمایا  ؎
منفعت ایک اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
تاریخ علامہ اقبال کے افکار کو عملی جامہ پہنانے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ آج بحیثیت مجموعی مسلمان زیر عتاب ہیں ان کی کوئی بین الاقوامی افق پر قیادت نظر نہیں آرہی۔ افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں بے گناہ لوگوں کا ناحق خون ہو رہا ہے۔ ان حالات کی موجودگی میں علامہ اقبال کی روح تڑپتی ہو گی لیکن علامہ اقبال نے پنی زندگی کے بالکل آخری ایام میں یہ بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سن فقیر کی زندگی تو انجام کو پہنچ رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی اور رازوں کا بھیدی مسلمانوں کو میسر ہوگا نہیں۔ فارسی کا شعر کچھ یوں ہے  ؎
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نا آید

مزیدخبریں