کیلی فورنیا کے اخروٹی سے پوچھ لے!

ستائیس جنوری 2011ءکو لاہور میں ایک غیر ملکی نے دو پاکستانیوں کو گولی مارکر قتل کردیا،یہی نہیں بلکہ جائے وقوعہ سے بھاگتے ہوئے اُس نے ایک تیسرے پاکستانی کو اپنی گاڑی تلے کچل کر بھی قتل کردیا، تین افراد کے قتل نے موقع پر موجود پاکستانیوں کو مشتعل کردیا، لوگوں نے غیرملکی قاتل کی فرار ہونے کی کوشش ناکام بنادی، پولیس موقع پر پہنچی اور قاتل کو گرفتارکرلیا گیا۔ یہ واقعہ اتنا سادہ نہ تھا، تھوڑی دیر میں ملک کے اندرنیچے سے اوپر تک ”تاریں“ کھڑک گئیں،غیرملکی سفارتخانے سے ٹیلی فون آنے پر وزارت داخلہ میں سراسیمگی پھیل گئی، وزارت خارجہ سے رابطہ ہوا ور اعلیٰ سیکیورٹی ادارے بھی متفکر نظر آنے لگے۔ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ قاتل کوئی عام شخص نہ تھا بلکہ ایک امریکی شہری تھا۔ یہ قاتل ریمنڈ ڈیوس تھا، جسے بچانے کیلئے امریکی سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کو خود میدان میں اُترنا پڑا۔ اُدھر میڈیا میں خبریں آنے لگیں کہ تین پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس کوئی عام امریکی شہری بھی نہیں بلکہ امریکی سی آئی اے کا ایجنٹ اور پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے آیا ہوا ہے، جس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے ملک میں ایک جانب مظاہرے شروع ہوئے تو دوسری جانب روایتی طور پر اس معاملے پر ملک کے اندر سیاست بھی شروع ہوگئی۔ اُدھر ریمنڈ ڈیوس کی فوری رہائی کیلئے امریکی حکام کا پاکستان پر دباو¿ مسلسل بڑھتا چلا جارہا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوششیں رنگ لائیں اور 16مارچ کو دیت کے قانون کے تحت ریمنڈ ڈیوس کو رہائی مل گئی، جسکے بعد وہ امریکہ سدھار گیا۔ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے لے کر رہائی تک پاکستانی اور امریکی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے ہونیوالی کوششوں کی رودادشایع ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہے۔ یہ داستان ِطلسم ہوشربا دراصل امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا کی حال ہی میں شایع ہونےوالی یادداشت ”وردی فائٹس“ ہے۔ یوں تو پنیٹا کی کتاب (Worthy Fights) میں امریکی صدر سے لیکر امریکی فوج تک سب کی نااہلی کا بڑے خوبصورت انداز میں احاطہ کیا گیاہے، لیکن اس کتاب کا ایک باب ریمنڈ ڈیوس اور اسامہ بن لادن سے متعلق ہے جو دراصل پاکستانی قیادت کی نااہلیوں ، نالائقیوںاور بداندیشیوں کی داستان عبرت ہے۔ جب ہزاروں مثالیں موجود ہوں تو پھر پاکستانی حکام کی نااہلی سے متعلق کوئی بھلا کیسے شک نہ کرے؟ مثال کے طور پرریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے ڈیڑھ ماہ بعد ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کیخلاف کیا جانیوالا آپریشن کیانااہلی کا واضح ثبوت نہیں تھا؟اس آپریشن پر کمیشن بنا، لیکن آج کہاں ہے وہ کمیشن ؟ اور پھر اُس کمیشن کی فائنڈنگز کا کیا بنا؟ پاکستان کو درپیش بے شمار مسائل کی ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ اکثراوقات ہم اپنی طاقت کو ”اوورایسٹیمیٹ“ کرکے آتش نمرود میں کود پڑتے ہیں اور پھر اپنی صلاحیت کو ”انڈرایسٹیمیٹ“ کرکے اس آتشِ نمرود کو اپنا مقدر سمجھ لیتے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ہم پاکستانی قوم کی ساخت اور ہئیت کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ پاکستانی قوم میں مسائل سے نبرد آزما ہونے اور بحرانوں سے نکلنے کی فطری صلاحیت موجود ہے، لیکن ہم نے کبھی اس صلاحیت کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب یہ مضحکہ خیز بات نہیں تو اور کیا ہے کہ لاہور میں واہگہ بارڈر کے قریب ہونیوالے خودکش دھماکے کے حوالے سے تفصیلی خبر ایک ہفتہ پہلے اخبارات میں شایع ہوچکی تھی اور انسداد دہشت گردی کا سیل ممکنہ طور پر ہونے والی اس تخریبی کارروائی کی جزیات پر ایک رپورٹ اس واقعے سے پہلے ہی قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو ارسال کرکے اقدامات کی سفارش بھی کرچکا تھا، لیکن اسکے باوجود یہ سانحہ ہوگیا اور بے گناہ پاکستانیوں کی شہادتوں کو نہ روکا جاسکا۔ دہشت گردی کی کسی کارروائی کے بارے میں پہلے سے اتنی زیادہ مصدقہ اور تفصیلی اطلاعات ہونے کے باوجود اس سانحے کا ہوجانا اپنی جگہ خود ایک سانحہ ہے!
قارئین محترم!! پنیٹا کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد پاکستانی حکام بغلیں بجا رہے تھے کہ قاتل کی رہائی کیلئے امریکی حکام بار بار اُنہیں فون کررہے ہیں ، لیکن کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہ کی کہ امریکی شہری تو پہلے بھی پاکستان میں گرفتار ہوتے رہے، پھر ایک ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے امریکہ کو اتنا تردد کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پنیٹا کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اسامہ بن لادن تک مئی 2011سے بہت پہلے پہنچ چکا تھا اور مارچ میں اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری نے اسامہ کےخلاف آپریشن کو تاخیر کا شکار کردیا ؟پنیٹا کیمطابق اگر ریمنڈ ڈیوس رہا نہ ہوتا تو شاید اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد میں کیا جانیوالا آپریشن بھی التوا کا شکار ہوتا چلا جاتا۔ اس لیے پنیٹا کے مطابق اسامہ بن لادن کیخلاف آپریشن سے پہلے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے نکالنا بہت ضرور تھا، کیونکہ اگر اسکی رہائی سے پہلے ایبٹ آباد آپریشن ہو جاتا تو پھر شاید ریمنڈ ڈیوس کی رہائی عمل میں نہ آتی۔ پنیٹا سے پوچھا گیا کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو نہ چھوڑا جاتا تو پھر امریکہ کیا کرتا؟ کیا کسی بھی صورت امریکہ ریمنڈ کی رہائی سے قبل اسامہ کیخلاف آپریشن کردیتا؟ کیلی فورنیا میں اپنے اخروٹوں کے فارم میں گلہریوں کی اچھل کود دیکھ کر خوش ہوتا لیون پنیٹایکدم سنجیدہ ہوگیا ”آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟اسامہ کیخلاف آپریشن ہر امریکی شہری کی زندگی بچانے کیلئے کیا جانا تھا، ایسے میں ریمنڈ ڈیوس جو بیرون ملک امریکہ کیلئے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیار ہوگیا تھا، بھلا اُسے جیل میں گلنے سڑنے کیلئے کیسے چھوڑا جاسکتا تھا؟ریمنڈ کو بچانا ، اسامہ کو مارنے سے زیادہ اہم تھا“۔ یہ جان کر کیا ذہنوں میں سوال نہیں اٹھتا کہ جب پہلے سے معلوم تھا تو پھر واہگہ سے اٹھنے والی ساٹھ لاشوں کا ذمہ دار کون ہے؟ جب خودکش بمبار کی لاہور میں موجودگی اور فلیگ ”سرمنی“ کو اڑانے تک کی اطلاعات موجود تھیں تو پھر اس سانحے کو کیوں ہونے دیا گیا؟ کیا تقریب منسوخ نہیں کی جاسکتی تھی؟ ساٹھ لاشیں گرنے دینا اور اگلے روز تقریب کا دوبارہ ہونا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ہمارے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی قدر قیمت نہیں ہے؟کسی کو شک ہے تو کیلی فورنیا کے اخروٹی سے پوچھ لے!

ای پیپر دی نیشن