گورنر کے طور پر بھی مخدوم احمد محمود بہت مختلف تھے۔ اب بھی ان کے خیالات دوسروں سے بالکل الگ ہیں۔ کچھ تو ہے کہ پورے پنجاب میں صرف مخدوم صاحب کے بیٹے پیپلزپارٹی کی طرف سے جیتے۔ وہ جیالے کم اور مخدوم صاحب کے بیٹے کے طور پر زیادہ معروف ہوئے۔ مخدوم صاحب نے ایک ملاقات میںکہا کہ سندھ کلچر آج بھی پیپلز پارٹی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ وہاں سندھ کے وزیراعلیٰ کے طور پر قائم علی شاہ ہی پارٹی کو سوٹ کرتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ مخدوم صاحب نے کہا سندھ پیپلز پارٹی میں قائم علی شاہ سے بڑھ کر کوئی آدمی دیانتدار نہیں ہے۔ مخدوم صاحب کو کون بتائے کہ دیانتداری کا وصف بہت اہم ہے مگر صرف دیانت کافی نہیں ہے۔ اہلیت بھی بہت اہم ہے۔ ہماری سیاست میں لوگ نہ تو اہل ہیں اور نہ اہل دل ہیں۔ کسی صورت میں قائم علی شاہ کا موازنہ شہباز شریف سے نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی طور پر پنجاب سے مراد شہباز شریف ہے مگر سندھ سے مراد قائم علی شاہ نہیں ہے۔ نہ ہی ڈاکٹر مالک کو بلوچستان سے منسلک کیا جاتا ہے۔ پرویز خٹک سے مراد خیبر پختون خوا تو بالکل نہیں ہے۔ باقی لوگ مقامی طور پر سیاست سے منسلک ہیں۔ ہمارے ضلعے کا کیا ہو گا؟ جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کا تعلق ہے تو مخدوم احمد محمود کا خیال ہے کہ وہ بڑا شاندار نوجوان ہے۔ خوبصورت اور ملائم۔ وہ اچھا سننے والا ہے۔ اچھا بولنے والا ہے۔ گفتگو کا سلیقہ جانتا ہے۔ تقریر کے لیے ابھی اسے ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ بلاول کا زمانہ کب شروع ہو گا۔ یہ بات مخدوم صاحب نہیں جانتے۔ صرف ’’صدر‘‘ زرداری جانتے ہیں۔ مخدوم صاحب مسلم لیگی ہیں۔ اور ابھی تک مسلم لیگی ہیں۔ پیپلز پارٹی میں ابھی انہیں وقت لگے گا کہ مکمل طو رپر جیالے بن جائیں۔ برادرم عبدالقادر شاہین ان کے بہت پرانے دوست ہیں۔ ہم چند دوستوں کی ملاقات کا اہتمام بھی انہوں نے مخدوم صاحب کے ساتھ کیا تھا۔
میری ایک ملاقات گورنر ہائوس میں ان کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ گورنر تو بالکل نہیں لگ رہے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ تم میرے علاقے میں آؤ اور وہاں لوگوں سے ملو۔ یہ ممکن نہ ہوا تو پھر لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی اور وہ لاہوریئے ابھی نہیں ہو سکے۔ ایک اچھا پینڈو ہونا ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ان سے زیادہ تو میں خود کو پینڈو سمجھتا ہوں مگر شہر میں پینڈو ہونے کا تاثر بہت اچھا ہے۔ لاہور شہر میں بھی بہت پینڈو ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ جو لوگ یہاں مشہور ہوئے اور جنہوں نے کسی شعبے میں کوئی قابل ذکر کام کیا وہ سب کے سب باہر سے لاہور آئے تھے۔
داتا گنج بخش اس کے لیے سب سے بڑی اور اعلیٰ مثال ہے۔ وہ باہر سے تشریف لائے تھے اور پھر لاہور کے ہی ہو رہے۔ یہ بھی لاہور کی ایک صفت ہے کہ جو یہاں آیا پھر کہیں نہ گیا نہ جا سکا۔ پروفیسر محمد منور بھی سرگودھا سے آئے تھے کیا کرتے۔ لاہور ایک بیماری کا نام ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ داتا صاحب نے لاہور کو جو عزت اور مقام دیا اس کے بعد لاہور کو ’’نگری داتا کی‘‘ کہا جانے لگا۔
جو بھی لاہور آتا ہے وہ داتا دربار ضرور جاتا ہے۔ اس کے بغیر لاہور کا چکر مکمل نہیں ہوتا۔ سچا دربار یہی ہے۔ سرکاری دربار تو عارضی ہوتے ہیں۔ داتا دربار کو جو دوام حاصل ہے۔ اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ حضرت داتا صاحب نے فرمایا لاہور عروس البلاد است۔ لاہور شہروں کا سردار ہے۔ یہاں جو بات کی جاتی ہے وہ ساری دنیا میں مشہور ہو جاتی ہے۔
سیاستدانوں نے بھی لاہور کی اہمیت کو ہمیشہ تسلیم کیا۔ جو تحریک کامیاب ہوئی وہ لاہو رمیں چلی تو آگے بڑھی۔ داتا دربار کے ساتھ ہی مینار پاکستان ہے جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ پھر سات سال کے اندر پاکستان بن گیا۔ قائداعظم نے لاہور میں کھڑے ہو کے پہلی بار پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال سیالکوٹ سے آئے تھے۔ وہ کچھ دیر اقبال سیالکوٹی کے طور پر متعارف رہے مگر پھر اقبال لاہوری ہو گئے۔ ان کا مزار بھی شاہی مسجد کے پہلو میں لاہور کے اندر ہے۔ دنیا کا ہر حکمران لاہور آئے تو یہاں حاضر ہوتا ہے۔
مرشد و محبوب مجید نظامی 21 اپریل اور 9 نومبر کو مزار اقبال پر حاضری دیتے تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ساری ٹیم شاہد رشید کے ساتھ نظامی صاحب کے بعد بھی حاضری دیتی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین صدر محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں بہت لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ حمید نظامی اور مجید نظامی سانگلہ ہل سے لاہور تشریف لائے۔ قائداعظم کی ہدایت پر حمید نظامی نے نوائے وقت جاری کیا اور پھر طویل مدت تک مجید نظامی کی ادارت میں یہ قومی اخبار بن گیا۔ نوائے وقت کی یہ تخصیص اب تک قائم ہے اور انشااللہ ہمیشہ قائم رہے گی۔
مخدوم احمد محمود کی گورنری سے بات شروع ہوئی۔ انہیں بھی لاہور کی گلیوں کی ہوا یہاں کھینچ لائی۔ آج گورنر ہائوس میں رفیق رجوانہ صاحب موجود ہیں۔ انہیں سینکڑوں اشعار یاد ہیں۔ وہاں عظیم خطیب ادیب شاعر اور نامور صحافی شورش کاشمیری کے بیٹے آغا مشہود شورش موجود ہیں تو ہمارا آنا جانا گورنر ہاؤس میں لگا رہتا ہے۔ رفیق رجوانہ صاحب ذوق و شوق کے آدمی ہیں۔ آغا مشہود شورش کی صحبت میں سارے گورنر اہل ذوق میں سے ہو گئے۔ بڑے باپ کے بیٹے میں اپنے عظیم والد کی کئی نشانیاں موجود ہیں۔
ناصر کاظمی ایک بڑا شاعر تھا۔ وہ ساری ساری رات لاہور کی تنہائیوں میں پھرتا تھا۔ کبھی کبھی ہم بھی اس تنہائی کا حصہ بنتے تھے۔ ان کا ایک شعر یاد آیا ہے۔
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
تری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
Nov 07, 2015