تاریخ ہمیں بتاتی ہےکہ جب بھی مسلمانوں پرکوئی کڑا وقت آیا، ان پر عزت و سرفرازی کے راستے مسدود ہو گئے، جابر حکمرانوں کی عیاشیوں اور باہمی آویزشوں ، مذہبی طبقات کی انتہا پسندی او ر تنگ نظری کے ا±ٹھائے گئے فتنوں نے سوسائٹی کا امن اور سکون غارت کر دیا تو ایک ادارہ ہمیشہ ایسا رہا ہے جو مایوس ہو کر بیٹھ نہیں گیا، بلکہ اس نے اپنے توانا فکرو عمل اور حسن تدبیر سے اسلامی معاشرہ اور اس کی تہذیب کو بچانے میں بڑا جاندار کردار ادا کیا۔ یہ ادارہ صوفیا کرام کی خانقاہیں تھیں۔ انگلستان کے مشہور مشتشرق ایچ۔آر گب نے آکسفورڈ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔“ تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا، لیکن اس کے باوجود وہ مغلوب نہیں ہو سکا۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف اور صوفیا کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آ جاتا تھا اور اس کو اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی ”۔یہی صوفیا کرام تھے جنہوں نے شکست و ریخت کی آندھیوں میں اپنی خانقاہوں کی اوٹ اسلام کی شمع جلائے رکھی۔ فتنوں کی یلغار کے مقابلہ میں خانقاہ کا ادارہ ایک دفاعی قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس نے اسلامی تہذہب و کلچر اور دینی و روحانی اعلی اقدار کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اسے اپنی آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے میں بھی بڑا فعال کردار ادا کیا۔ صوفیا کے اس فکر و عمل کا جائزہ لیا جائے تو اس کی کامیابی میں مندرجہ ذیل عناصر کارفرما نظر آتے ہیں۔1) حکمرانوں اور سیاسی طبقات کی باہمی آویزشوں سے دوری اور جاہ و منصب سے بے نیازی،) احترام انسانیت اور تمام مذاہب اور مسالک سے رواداری،3) علم کی اشاعت اور فروغ،4) دکھی انسانیت کی خدمت۔ افسوس کہ مسلمانوں پر طاری ہمہ گیر زوال سے خانقاہ کا ادارہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ خانقاہ نشینوں نے حکومتی ایوانوں کا رخ کر لیا اور جاہ و منصب اور مال و زر کے حصول میں لگ گئے جس سے خانقاہ اکا ادارہ اپنا اصل کردار کھو بیٹھا۔ اس خلا سے انتہا پسندوں، شدت گیروں اور فساد کو جہاد قرار دینے والے دہشت گردوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، تاہم خانقاہی نظام کے اس دور زوال میں بھی بعض خانقاہوں نے اپنے اسلاف کے فکر و عمل کے چراغ روشن کر رکھے ہیں۔ انہیں میں سے ضلع سرگودھا کی ایک مثالی خانقاہ بیربل شریف بھی ہے۔ معروف دانشور اور صحافی جناب سعید آسی نے 2013 میں اس خانقاہ کا وزٹ کیا تو اپنے کالم بیٹھک میں “بیربل شریف کا چشمہ فیض کے عنوان سے تحریر فرمایا،“ دینی مدرسوں کے پس منظر کے حوالے سے اس ادارے کے بارے میں بھی میری سوچ گڑبڑائی رہی مگر اس ادارے کی سالانہ تقریبِ تقسیم انعامات کے مہمانوں کی فہرست پر نظر دوڑائی تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس فہرست میں میرے علاوہ برادر ملک ترکی کے دانشور اور چیئرمین رومی چیئر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر درمش بلدر، پنجاب اور سرگودہا یونیورسٹی کے نامور پروفیسروں کے علاوہ نمل یونیورسٹی، جی سی یو لاہور اور فیصل آباد کے سینئر اساتذہ کے نام بھی شامل تھے۔۔۔آخر کچھ بات تو تھی جو ان سب احباب کو خوشبو کی طرح اپنی جانب کھینچے چلے جارہی تھی” وہ خوشبو جس نے جناب سعید آسی اور دیگر دانشوروں اور صاحبان علم و فضل کو اپنی طرف کھینچا تھا وہ دراصل اس خانقاہ کا مثالی کردار ہے۔ اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین پروفیسر محبوب حسین جدید علوم عصریہ اور شریعہ کے فاضل اور ماہر تعلیم ہیں۔ وہ صوفیاکرام کے فکر وعمل کے مذکورہ بالا چاروں اصولوں پر کاربند ہیں۔ ان کی جدوجہد گزشتہ نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے ادارہ معین الاسلام قائم کر کے جدید علوم اور دینی علوم کا حین اور کامیاب امتزاج کر کے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اس ادارہ میں نو سو سے زائد طالب علموں کو تعلیم، رہائش، کھانا اور میڈیکل کی مفت سہولیات میسر ہیں۔ ضرورت مند طالبعلموں کووظائف اور یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے جیب خرچ بھی دیا جاتا ہے۔ ادارہ کا رزلٹ ہر سال سو فی صد آتا ہے یہاں تک کہ بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں بھی نمایاں پوزیشنز لینے والے بھی اکثر اسی ادارے کے طلبہ ہوتے ہیں۔ یہ نو سو طالبعلم وہ ہیں جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں یا یتیم اور بے سہارا ہیں۔ ادارہ ان کی تمام ضروریات کا کفیل ہوتاہے، ان بچوں کی خوداری اورعزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے، کسی طالب علم کو چندوں کی وصولی کے لیے نہیں بھیجا جاتا۔ ان کی تعلیم و تربیت صحت مند ماحول میں ہوتی ہے طالب علم ہم نصابی سرگرمیوں اور مقابلوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ بے شمار طالب علم ایم فل اور پی ایچ ڈی کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ تمام کام ادارہ کے سربراہ کسی حکومتی اور بیرونی مالی مدد کے بغیر کر رہے ہیں۔ ان طالب علموں کی اخلاقی تربیت کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے ، انھیں صوفیاءکے عدم تشدد، رواداری اور احترام انسانیت کے اصولوں سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ تعلیمی میدان میں خدمات کے علاوہ دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاح کے لیے صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم اس دور ا±فتادہ علاقے میں مفت میڈیکل اور آئی کیمپوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ادارہ معین الاسلام بیربل شریف کی خدمات کے بعض گوشوں پر اس لیے روشنی ڈالی ہے تاکہ دیگر خانقاہوں کے لیے راہ عمل کی نشاندہی کی جائے۔ ا?ج دنیا جنگ و جدل سے پریشان اور امن و سکون کی تلاش میں سر گرداں ہے۔ تنگ نظری ، عدم برداشت اور انتہا پسندی نے ملک و ملت کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس وقت جہاد بالسیف کی بجائے جہاد بالعلم کی ضرورت ہے۔ اگر تمام خانقاہیں اسی طرح بیدار ہو کر اپنے اسلاف کے کردار کو اپنا لیں تو وہ غریب طالب علم اور بچے جو دین کے نام پر دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں انھیں معاشرہ کا مفید اور پر امن شہری بنایا جا سکے گا۔ یہ دہشت گردی کو کاونٹر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ جنگ و جدل، دہشت گردی غربت و افلاس اور دکھوں کی ستائی دنیا ایک مرتبہ پھر خانقاہوں کے اسی کردار کو دیکھنے کی منتظر ہے۔
دہشت گردی کا توڑ خانقاہی نظام کا احیائ
Nov 07, 2015