جب سے میں نے ہوش سنبھالا یہی سمجھ میں آیا اور اب تک اسی نظرئے پر قائم ہوں کہ پوری دنیا میں انسانی سماج دو حصوں میں تقسیم ہے۔ یہ دنیا بنیادی طور پر کمزوروں اور طاقت وروں کی دنیا ہے۔زور آور بالادست طبقے نے اپنے مفاد میں کمزوروں کو ذات پات، رنگ نسل وغیرہ میں مزید تقسیم کیا تاکہ کمزوروں پر حکومت کرنے میں آسانی رہے
زور آور طبقے کی آبادی محدود مگر طاقت لا محدود ہے،یہ طبقہ خودبھی آپس میں دست و گریباں رہتا ہے مگر آپس کی یہ جنگ کمزوروں کے مفاد کے لئے ہر گز نہیں ہوتی۔ یہ آپس میں لڑتے ہیں طاقت کے لئے،۔۔ طاقت ایک نشہ ہے ،جب ایک کا نشہ ٹوٹتا ہے تو وہ دوسرے پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اس لڑائی کو کمزور جب دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کے لئے ہو رہا ہے۔ حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا،یہ سب کچھ تو نشے کے لئے ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جب آپس میں لڑتے ہیں تو تو نام کمزور طبقے یعنی عوام کا ہی کیوں لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑتے اپنے لئے ہیں مگر لڑائی کی آگ کا ایندھن عام لوگوں کو بناتے ہیں ۔دور کیوں جائیں ، اس کا ثبوت تو وطنِ عزیز میں رونما ہونے والے گذشتہ چند دنوں کے واقعات ہیں۔ کیا چشمِ فلک نے نہیں دیکھا کہ کس طرح پرویز خٹک عام لوگوں کے ایک ہجوم کو دکھوں کا کا سامنا کرنے کے لئے کھلے آسمان تلے سردی کی اندھیری اور خوفناک رات گزارنے کا حکم دے رہے تھے۔۔۔۔ اس کے صلے میں عمران خاں نے کہا ۔پرویز خٹک پاکستان کا ہیرو ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم تو اپنے قائد سے ملنے جارہے تھے۔کیا یہ راز سمجھنے کے لئے افلاطون کی عقل چاہئے کہ وہ دھرنے میں شریک ہونے جارہے تھے۔ اگر کہا گیا کہ اس دھرنے کی وجہ سے عام لوگوں کو تکلیف ہو گی تو ارشاد ہوا¿ کہ قربانی تو دینی پڑتی ہے۔سبحان اللہ، قربانی دینے والے سے کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ قربانی دینا چاہتے ہو کہ نہیںِ ِ ۔ بیلوں کی اس لڑائی میں جو مارے جاتے ہیں ، بس وہ مر جاتے ہیں ۔یہ ایک دوسرے پر پرچہ کٹوانے کی دھمکیاں وغیرہ دے کر بس یہ جا وہ جا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ عوام جس کو یہ حشرات الارض سمجھتے ہیں اگر اس میں سے کچھ لوگ انکی لڑائی یا کسی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ جائیں تو بڑے مزے سے ©؛قیمتی جانوں؛کے نقصان پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں۔یہ جانیں جن کی قیمت پچاس ہزار روپے سے لاکھ دولاکھ تک ہوتی ہے کسی جلسے میں بھی ضائع ہو سکتی ہیں اور کسی ٹرین کے حادثے میں بھی ۔بتایا گیا ہے کہ ٹرین کے حادثے کی ذمہ دار انسانی غلطی ہے۔ یعنی ٹرین ڈرائیور کی غلطی ہے۔کبھی سوچا کہ ٹرین ڈرائیور کتنا اہم آدمی ہے۔اس آدمی پر ہزاروں لوگوں کی جان کی ذمہ داری ہے۔اس کی تنخواہ کتنی ہے۔ اسکے مالی حالات کیسے ہیں جو کہ تمام ذہنی پریشانیوں کا اصل سبب ہیں۔اس کے اوقاتِ کا کیا ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پورے ریلوے کے نظام میں سب سے زیادہ تنخواہ، سب سے زیادہ مراعات ان لوگوں کے پاس ہوں جو گاڑی کو پٹڑی پر چلانے کے عمل میں برا ہ ِ راست شریک ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی عملہ جو اصل عملہ ہے سب سے زیادہ محروم ہے، سوال یہ ہے کہ اہلِ اقتدار کی نظروں میں انسانی جانیں دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ہی قیمتی کیوں ہو جاتی ہیں کیا اس لئے کہ سرکار کو انکی قیمت ادا کرنی پڑ جاتی ہے۔شاید یہی سچ ہے اگر انکے خیال میں عام آدمی کی زندگی واقعی قیمتی ہو تو یہ اس کا خیال موت سے پہلے بھی رکھیں ۔ مزدور کوئلے کی کان میں دم گھٹ کر مر جاتے ہیں ۔زندہ انسان جہاز توڑتے ہوئے جل کے راکھ ہو جاتے ہیں۔ ادھر سے نوٹس لے لیا جاتا ہے اور رپورٹ طلب کر لی جاتی ہے۔لیجئے فرض پورا ہو گیا ہے۔ا¿ جکل میڈیا کا دور ہے کیمرے کے سامنے آمنے کا شوق کسے نہیں اگر کسی جانور کو بھی معلوم ہو جائے کہ وہ ٹی پر آئے گا تو بڑے شوق سے ذبح ہونے کو تیار ہو جائے، چنانچہ حادثات ہوتے ہیں تو اظہہارِافسوس کے لئے ٹی وی پر آنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔جہاں تک مرنے والوں کا تعلق ہے تو وہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا¿۔۔