پانامہ لیکس (دھرنے سے عدالت تک)

اسلام آباد پولیس لائنز میں دھرنے سے نمٹنے کے لیے بلائی جانے والی پولیس اور ایف سی کے جوانوں سے خطاب کر تے ہوئے وزیر داخلہ نے جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ قابل فخر ہو۔ آپ لوگوں نے ہمت , حو صلے اور صبر کا بہترین مظاہرہ کیا ۔اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔آپ نے ملک کے ایک اہم شہر پر حملہ کرنے والوں کو روک کر دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پاکستان میں اب ریاست کی رٹ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔اب کوئی جماعت یا کوئی مسلح جتھہ نہ تو حکومت کو مجبور کر سکتا ہے ۔نہ کسی شہر کو بند کر سکتا ہے ,اور نہ ہی پولیس کے جوانوں پر اپنی رائے مسلط کر سکتا ہے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ کے اس بیا ن کو سختی سے مسترد کردیا کہ ان کے سامنے ایف سی کھڑی کردی گئی ۔ایف سی یا پولیس ریاست کے ادارے ہیں۔اور حکومت کوئی بھی ہو ان کا کام قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا نا ہوتا ہے ۔اس بار حکومت کو سختی سے پیش آنے کی ضرورت اس لیے بھی پڑی کہ دھرنے والوں نے اسلام آباد کو بند کرنے اور حکومت کو مفلوج کرنے کا واضع اعلان کیا ہوا تھا ۔جس سے ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ۔پچھلے دھرنے کے موقع پر حکومت نے ہر ممکن حد تک دھرنے والوں سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی تھی ۔جس کے نتیجے میں کبھی پولیس کے جوانوں پر حملہ کیا جاتا رہا ۔تو کبھی کسی میڈیا ہائوس کے دفتر پر پتھر پھینکے جاتے رہے تھے۔اس لیے اب بہت ضروری تھا کہ اسلام آباد پر کسی طور بھی چڑھائی نہ ہونے دی جاتی۔اس لیے حکومت نے دو ٹوک اور واضع فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل کر کے شہر کے امن و امان کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف واپس ملک آئے تھے تو اس وقت بھی تو سارے ملک میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھیں۔ہم نے تو پنجابی پٹھان کا نعرہ نہیں لگایا تھا ۔بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ پنجا ب کے عوام نے کبھی بھی تعصب کی بنا پر کوئی نعرہ نہیں لگایا ۔ہر سیاست دان کو عزت دی ہے ۔ ذوالفقار بھٹو سے لے کر عمران خان تک سبھی کو یہاں کے عوام نے بے پناہ عزت سے نوازا ہے ۔اب جس وقت پی ٹی آئی نے اسلام پریڈ گراونڈ میں پر امن جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو حکومت نے ان کے اس فیصلہ پر انہیں ہر طرح سے سہولیات بہم پہنچانے کی کوشش کی ۔جس پولیس پر پی ٹی آئی کے جیالے مشتعل تھے ۔اسی پولیس نے ان کی بہترین سیکیورٹی کا انتظام کیا۔ سیاست سیاست دانوں کا ہی کام ہے ۔مگر سیاست کرتے وقت وقتی فائدے کے لیے نفرت کے بیج نہیں بونے چاہئیں۔ٖپرویز خٹک اسلام آباد میں پرٹو کول کے ساتھ آنا چاہتے تھے ۔اور انہیں اس بات پر غصہ بھی تھا کہ حکومت انہیں پروٹوکول کیوں نہیں دے رہی ہے ۔انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ اگر وہ مسلح جتھے لے کر اسلام آباد کو مفلوج کرنے آئیں گے تو پھر انہیں پروٹوکول نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ اس سے پہلے وہ جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے رہے ہیں انہیں مکمل پروٹوکول ملتا رہا ہے ۔اور آئندہ بھی ملتا رہے گا۔ مگر انہیں اپنے عہدے کا پاس رکھنا ہوگا۔
تحریک انصاف ایک عرصے سے حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتی چلی آرہی ہے ۔انہوں نے حکومت مخالف تحریک پورے زور و شور سے چلائی ہے ۔پورے ملک میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات کیے گئے ہیں۔حکومت پر دباو بڑھانے کے لیے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے قریب بھی ایک بڑا جلسہ کیا گیا ۔اور پھر آخر میں اسلام آباد میں فائنل رائونڈ کھیلنے کا فیصلہ ہوا تھا ۔اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کر کے پی ٹی آئی نے حکومت کو سخت ایکشن پر مجبور کردیا۔راستے بند کیے جانے لگے ۔پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ جب کشیدگی حد سے بڑھتی نظر آئی تو ملک کی معزز عدالت نے پانامہ لیکس کی شفاف تحقیقات خود کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔اس واضح اعلان سے ملک میں پیدا ہوتی انتشار کی فضا ایک دم ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی ہے ۔تحریک انصاف والوں نے اسے اپنی فتح سمجھا ہے ۔تو وزیر اعظم اور ان کے رفقا نے کہا کہ وہ تو پہلے ہی اپنے آپ کو عدالت کے سامنے سرنڈر کر چکے ہیں۔ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتیں ہی بہترین پلیٹ فارم ہیں۔اپوزیشن کو حکومت سے اگر کوئی شکایت ہے تو اس کے حل کے لیے سڑکوں پر جلسے کرنے کی بجائے پارلیمنٹ اور عدالتوں میں اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔سڑکوں پر سیاست دان ووٹ لینے کے لیے جایا کرتے ہیں۔قانونی پیچیدگیوں کے حل کے لیے جو ادارے ہیں ان پر اعتماد کرنا سیکھنا ہوگا ۔اور جو مسائل ہوں ان کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔پانامہ لیکس پر شروع ہونے والا کیس بہت حساس نوعیت کاہے اس سے ملک کے حکمرانوں کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا ۔اگر پی ٹی آئی والے عدالت میں واقعی نوازشریف کے خلاف ثبوت پیش کردیتے ہیں۔تو پھر حکومت کا وجود خطرے میں ہوگا ۔بصورت دیگر وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائیں گے ۔عدالت نے کہا ہے کہ اس کیس کو جلد ازجلد حل کیا جائے گا ۔اور غیر ضروری تاخیر سے بچایا جائے گا ۔اور اب عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے اسے دونوں فریق کھلے دل سے تسلیم کرلیں۔جس سے ادا روں پر اعتماد کی روایت پڑے گی ۔جو سیاست اور جمہوریت کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے ۔اب فریقین کو سیاسی بیان بازی کم کرتے ہوئے عدالت کی معاونت کرنی چاہیے۔اپوزیشن کے پاس جو ثبوت ہیں انہیں معزز عدالت کے سامنے لانا چاہیے۔میڈیا پر بیان بازی سے کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکتا ہے ۔ ہمارے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ ہم ثابت کریں کہ ہمارے ادارے واقعی کام کر رہے ہیں۔قانون سب کے لیے برابر ہے ۔

ای پیپر دی نیشن