حالات ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتے ہیں جس میں عالمی امن پر بھی اثرات مرتب ہونگے

بھارت کا جنگی جنون جاری، جاپان سے بھی طیارے خریدنے کا معاہدہ ایل او سی پر جارحیت میں اضافہ

بھارت کے جنگی جنون میں اضافہ ہو رہا ہے بھارت مختلف ممالک سے اسلحہ خرید کر خطے کی سیکیورٹی کے لئے بھی خطرہ بنتا جارہا ہے اور اب بھارت نے جاپان سے (100 ارب 10 ہزار کروڑ روپے) روپے مالیت کے جدید ترین طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کےمطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نومبر کے دوسرے ہفتے میں جاپان کا دورہ کریں گے جس میں دونوں ممالک کے درمیان سول نیوکلیئر کو آپریشن کے معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت اس دورے میں جاپان سے جدید نوعیت کے ایک درجن یو ایس ٹو آئی طیارے خریدنے کا معاہدہ بھی کرے گا۔ بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دو روز بعد وزیر دفاع منوہر پاریکر کے زیر صدارت ڈیفنس ایکویزیشنز کونسل (ڈی اے سی) کا اجلاس ہو گا جس میں جاپان سے یو ایس ٹو آئی پراجیکٹ کے تحت 12 طیارے خریدنے کےلئے مفاہمتی یادداشت کے معاملات طے کئے جائیں گے۔ پانی کی سطح اور خشکی پر اترنے اور پرواز کرنے کے قابل، ایسے 6 طیارے بھارتی بحریہ اور 6 کوسٹ گارڈز کو فراہم کئے جائیں گے۔ ایسا طیارہ جو پانی اور خشکی دونوں سے پرواز کرنے اور اترنے کی صلاحیت رکھتا ہو اسے جل تھلیہ (ایمفی بیئس) طیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یو ایس ٹو آئی طیاروں کو سرچ اور ریسکیو آپریشن کےلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ طیارے کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں 30 مسلح سپاہیوں کو فوری طور پر ریڈ زون میں اتارنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
بھارت جاپان سے جو طیارے خرید رہا ہے وہ اتنے خطرناک اور ہلاکت خیز نہیں ہیں تاہم جاپان جیسے ملک سے بھی اسلحہ کی خریداری اور سول نیوکلیئر تعاون کے معاہدے بھارت کے اسلحہ کے انبار لگانے کے خبط کو ظاہر کرتے ہیں۔ بھارت کو جہاں سے بھی جس قیمت پر بھی اسلحہ دستیاب ہے وہ فوری طور پر خریدنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ جاپان سے ان طیاروں کے حصول کے پیچھے بھی بھارت کی پاکستان دشمنی، عدم برداشت جنگی جنون کی ذہنیت کار فرما ہے۔ جاپان کی طرف سے فراہم کئے جانیوالے طیارے جنگ اور امن دونوں حالات میں کام آئیں گے۔ بھارت کو امن سے کیا سروکار وہ تو جنگ کیلئے روایتی اور غیر روایتی اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے۔ اس کی جنگ کی تیاری بھی پاکستان کے خلاف ہے اور یہ جنگ کوئی پہلی بار مسلط کرنے کے درپے نہیں، اس سے پہلے بھی تین بڑی جنگیں پاکستان کے خلاف لڑ چکا ہے اور ایک میں تو پاکستان ہی کو دولخت کر دیا۔ باقی بچے پاکستان کو بھی ملیا میٹ کرنا اس کے مکروہ ایجنڈے میں شامل ہے اس پر بھی وہ اب تک عمل پیرا ہو چکا ہوتا مگر پاکستان کا دفاع ایٹم بم نے ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ اس لئے بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کیلئے پاکستان میں مداخلت کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ باﺅنڈری پر اس کی جارحیت اور اشتعال انگیزی مسلسل جاری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کا دفاع، ناقابل تسخیر ہو گیا ہے مگر ضروری نہیں کہ بھارت کھلی جارحیت سے باز رہے۔ وہ موقع ملتے ہی پاکستان پر وار کر سکتا ہے، سو پاکستان کو اپنے گھوڑے مکار دشمن کیخلاف ہمہ وقت تیار رکھنے کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں یقیناً تیار ہیں۔
بھارت کو اس کی جارحیت کا جواب ایل او سی اور ورکنگ باﺅنڈری پر دیا جا رہا ہے۔ اس کی پاکستان کے اندر مداخلت کے منصوبوں پر پانی پھیرا جا رہا ہے۔ افغانستان کے ذریعے اس کے ایجنٹوں کے پاکستان میں داخلے کے راستے مسدود کئے جا رہے ہیں، ہر انٹری پوائنٹ پر گیٹ لگائے جا رہے ہیں۔ ملک کے اندر انٹیلی جنس ایجنسیاں فعالیت سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد مزید گرفتاریاں ہوئیں اور گزشتہ دنوں بھارتی سفارتی عملے کے آٹھ ارکان کو جاسوسی کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا گویا ہماری افواج اور ایجنسیاں جاگ رہی ہیں۔ بھارت کی سازشیں ناکامی سے دو چار ہو رہی ہیں مگر وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے نہ صرف مواقع کی تلاش میں رہتا ہے بلکہ ایسے مواقع پیدا بھی کر لیتا ہے۔ اس نے عالمی برادری میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشتگردی قرار دیتا اور پاکستان کو دہشتگردوں کا پشت پناہ اور حامی باور کراتا ہے۔ کچھ ملک اس کے فریب میں آ کر کچھ اپنے تعلقات اور تجارت کے فروغ کے باعث بھارتی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے اس حوالے سے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں اور بھارت کے درمیان معاشی معاہدے مسئلہ کشمیر کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ طاقتیں بھارت کی بڑی منڈی سے استفادہ ضرور کریں تاہم انسانیت کے قتل، اس کی تضحیک اور تذلیل پر خاموشی اختیار کریں نہ اس پر کمپرومائز کریں۔ پاکستان کی طرف سے عالمی قوتوں کو سفارتی فعالیت کے ذریعے انہیں مسئلہ کشمیر کے حل پر بھارت پر دباﺅ ڈالنے کیلئے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے گزشتہ دنوں 22 ایلچی کشمیر کاز کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں پر بھارتی سفاکیت بے نقاب کرنے کیلئے مختلف ممالک میں بھیجے، ان ممالک میں پاکستان کے گہرے دوست چین، سعودی عرب اور ترکی بھی شامل تھے۔ یہ ممالک بعض حوالوں سے پاکستان کے مفادات پر پاکستان سے بھی زیادہ شدید بیانات دیتے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور پھر حکومت نے ایسے ارکان پارلیمنٹ کو ایلچی بنا دیا جن کی مسئلہ کشمیر کے بارے میں معلومات بھی واجبی سی ہیں۔ ضرورت تو تھی کہ پاکستان سے کشمیر کاز کو جاننے اور سمجھنے والے ارکان کو ان ممالک میں بھیجا جاتا جو بھارت کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ صدر آزاد کشمیر گزشتہ روز برطانیہ اور ناروے کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ ایسے ممالک کو مسئلہ کشمیر پر اپنا ہمنوا بنانے کی ضرورت ہے۔
بھارت آج ایل او سی پر لاﺅ لشکر کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان کی کسی بھی حالات سے نبٹنے کی تیاری مکمل ہے، بھارت کو اپنے اسلحہ کا زعم ہے اس نے امریکہ، روس، آسٹریلیا، فرانس، اسرائیل، برطانیہ اور ہالینڈ جہاں سے بھی مہلک روایتی اور غیر روایتی اسلحہ دستیاب تھا خرید لیا۔ اب بھی اس کی ”نیت“ نہیں بھری۔ آج دونوں ممالک کی فوجیں جس پوزیشن میں ہیں۔ بھارت کی طرف سے ایل او سی پر لگائی آگ، بھارت کے جدید اسلحہ کے ذخائر کے زعم میں یا کسی طرف سے غلط فہمی کی بناءپر الاﺅ بن سکتی ہے اور پھر اسے ایٹمی جنگ بننے سے روکنا شاید ممکن نہ رہے۔ عالمی برادری کو اس حد تک نوبت پہنچنے سے قبل اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان بھارت ممکنہ جنگ کے شعلوں میں ان دو ممالک کا جھلسنے سے محفوظ رہنا تو ممکن نہیں ایٹمی جنگ پڑوسی ممالک کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے عالمی امن بھی بری طرح متاثر ہو گا۔ جس سے بچنے کا واحد طریقہ مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔ جہاں بھارتی بربریت اور سفاکیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی بھارتی فورسز کے مظالم سے دو نوجوان شہید ہو گئے اور جنازے پر شیلنگ سے 50 سے زائد افراد زخموں سے چور اور متعدد زندگی بھر کے معذور ہو گئے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ میں قرار دادیں موجود ہیں جن پر بھارت نے بھی دستخط کر رکھے ہیں مگر اب ان پر عمل سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ عالمی برادری بھارت کو ان قرار دادوں پر عمل کیلئے آمادہ کر کے عالمی امن کو داﺅ پر لگنے سے بچا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن