یقین کے ساتھ تو نہیں کہا جا سکتا کہ دودھ جیسی نعمت میں برصغیر پاک و ہند میں ملاوٹ کب سے جاری ہے اور اس مکروہ فعل بلکہ انسانیت دشمن فعل پر قابو پانے کی جتنی بھی کوشش کی گئیں اور جب بھی ہوئی ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملاوٹ سے پاک دودھ اگر بندگان خدا کو میسر ہوتا ہے اور وہ بھی مفت، لیکن صرف سال بھر میں صرف دو دن اور یہ بھی ان افراد کی قسمت میں ہوتا ہے جو حضرت داتا گنج بخش کے عرس میں شریک ہوتے ہیں اور لاہور کے گوالوں نے ایک دیرینہ رسم کے مطابق عرس کے موقع پر زائرین کے لئے دودھ کی سبیل لگائی ہوتی ہے۔ دودھ کی سبیل لگانے کی رسم صدیوں سے بڑی عقیدت اور اہتمام سے جاری ہے اور کہا جاتا ہے کہ لاہور کے گوالے عرس کے موقع پر بازار میں دودھ فروخت نہیں کرتے۔ طارق عزیز پاکستان ٹیلی وژن پر نیلام گھر لگایا کرتے اور اپنے سوالوں کے درست جواب پر انعام سے بھی نوازتے ہیں تو انہوں نے ایک پروگرام میں اصل دودھ کہاں ملتا ہے؟ کا سوال پوچھا تھا تو ایک نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا سوال درست کریں اور یہ پوچھیں کہ اصل اور کھرا دودھ کب اور کہاں ملتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ داتا صاحب کے عرس کے موقع پر لگائی گئی دودھ کی سبیل سے۔ اس پر طارق عزیز نے اس نوجوان کو انعام میں موٹرسائیکل دیتے وقت اپنے سوال کی تصحیح کرنے پر شکریہ ادا کیا ورنہ طارق عزیز سوال جواب میں کسی سے مات کھانے والی شخصیت نہیں ہیں۔ فیصل آباد کے ضلعی لائیوسٹاک کے زیراہتمام تحصیل کی سطح پر شہریوں کو ملاوٹ سے پاک دودھ استعمال کرنے سے متعلق آگاہی مہم چلائی گئی ہے اس ضمن میں محکمہ لائیوسٹاک کی طرف سے مختلف تعلیمی اداروں میں سیمینار بھی ہو رہے ہیں۔ ان سیمینار میں ماہرین غذا اپنے مقالات کے ذریعے دودھ میں ملاوٹ اور اس ملاوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ان سیمینار ز میں محکمہ لائیوسٹاک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر شامی، ڈاکٹر صالحہ گل، ڈاکٹر عمارہ اور ڈاکٹر افضل ستار دودھ میں ملاوٹ جیسے ناقابل معافی جرم پر روشنی ڈالتے ہیں اور عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ملاوٹ شدہ دودھ استعمال نہ کریں کیونکہ ملاوٹی دودھ صحت کا دشمن ہی نہیں بلکہ دیگر خطرناک بیماریوں کے علاوہ کینسر جیسی موذی مرض کا باعث بھی بن رہا ہے۔ دودھ قدرت کی طرف سے ایک ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہے لیکن بعض منفی ذہنیت کے مالک ہوس زر میں اندھے ہو کر اس میں ملاوٹ کر رہے ہیں اور ایسے ایسے کیمیکل دودھ میں شامل کر رہے ہیں جو کسی طور بھی زہر سے کم کا درجہ نہیں رکھتے۔ چلیں دودھ میں پانی کی ملاوٹ تو کسی حد تک برداشت کی جا سکتی ہے حالانکہ عوام کی غالب اکثریت کو شفاف پانی بھی مقدر سے ہی ملتا ہے تو دود ھ کہاں سے اصل حالت میں مل سکتا ہے؟۔ کچھ عرصہ قبل عدالت عظمیٰ نے بھی مارکیٹ میں فروخت ہونے والے دودھ کا نوٹس لیتے ہوئے بازار میں جو سیل بند دودھ فروخت ہوتا ہے اس کا نوٹس لیا تھا تو یہ حقیقت منظر عام پر آئی تھی کہ بہت سی دودھ فروخت کرنے والی کمپنیاں بھی معیار اور کوالٹی کے مطابق مارکیٹ میں دودھ مہیا نہیں کرتیں اور دودھ کی تیاری میں ایسے کیمیکل کا استعمال کرتی ہیں جس سے دودھ کی افادیت ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ دودھ سے جو غذائیت انسانی جسم کو فراہم ہوتی ہے اس کا فقدان ہوتا ہے۔ بعض کمپنیاں دودھ کے نام پر مصنوعی دودھ تیار کرتی ہیں، اس وقت مارکیٹ میں بہت سی کمپنیاں اپنا دودھ فروخت کر رہی ہیں جو قیمت کے حوالہ سے عام مارکیٹ میں فروخت ہونے والے دودھ سے زیادہ مہنگا ہونے کے باوجود معیار اور کوالٹی پر پورا نہیں اترتا اور دودھ میں ایسے ایسے پا¶ڈر کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر ہی نہیں بلکہ زہر کے مترادف ہوتا ہے۔ پاکستان میں ملاوٹ اور کرپشن تو عوام کا مقدر قرار پا چکی ہے۔
غالباً پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خالص دودھ صرف انہی افراد کی قسمت میں ہے جو دودھ دوہتے ہیں۔ فیصل آباد میں مقامی ایم پی اے حاجی خالد سعید کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بھی قائم ہے جو انسداد ملاوٹ کہلاتی ہے اور یہ اپنے پریس ریلیز میں بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہے، منوں ملاوٹی دودھ کو سڑکوں پر بہانے کے پریس ریلیز بھی جاری کرتی رہی ہے لیکن اس ٹاسک فورس کی تمام کارروائیاں نمائشی اور ذاتی پبلسٹی سے زیادہ کوئی درجہ نہیں رکھتیں؟ اور اس ٹاسک فورس کی کارکردگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی پورے فیصل آباد میں ہر کوئی کہتا ہے کہ خالص دودھ کہیں دستیاب نہیں ہے۔ حتیٰ کہ قانون کی موجودگی میں قانون پر کہیں عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا اور حکومت اگر انسداد ملاوٹ کے خلاف کسی مہم کا آغاز بھی کرتی ہے تو یہ مہم پروپیگنڈہ زیادہ ہوتی ہے۔مغربی ممالک میں لاکھ خرابیاں سماجی طور پر اخلاقی طور پر ہوں گی لیکن غذائی اشیاءمیں ملاوٹ کا وہاں تصور بھی نہیں ہے۔ ہم مغرب کی تقلید کرنے پر بڑا فخر کرتے ہیں کاش غذائی اشیاءمیں ملاوٹ کرتے وقت بھی مغربی ذہن کو سامنے رکھیں۔ جہاں غذائی اشیاءمیں ملاوٹ کوکسی کو مارنے سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا فلسفہ زندگی یہ ہے کہ انسان کا قتل ایک فرد کا قتل ہوتا ہے لیکن غذائی اشیاءمیں ملاوٹ پورے خاندان اور انسانیت کا قتل ہے۔ محکمہ لائیوسٹاک نے ملاوٹ سے پاک دودھ کے استعمال کی جو آگاہی مہم چلائی ہوئی ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنی مہم میں اصل ٹارگٹ دودھ فراہم کرنے والے افراد کو بنائیں، عوام تو مجبور ہے انہیں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے مارکیٹ کا ہی رخ کرنا پڑتا، لہٰذا گوالوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، لاکھ آگہی اور آگاہی مہم چلائیں اس کا نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ایک کہاوت ہے کہ بد نے بدی کرنی ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی جبلت کا حصہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دودھ میں ملاوٹ یقین کریں کہ گوالوں کی جبلت قرار پا چکی ہے اس جبلت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تو ناممکن نہیں!!