عمران خان نے کہا ہے کہ آصف زرداری سنیما کے ٹکٹ بیچتے تھے۔ یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہی شخص عظیم بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کا شوہر ہوا جو دو دفعہ وزیراعظم بنی تھیں۔ بھٹو صاحب بھی پاکستان کے صدر اور وزیراعظم رہے پھر زرداری صاحب پورے پانچ سال ایوان صدر میں رہے۔ وہ واضح اکثریت سے صدر پاکستان منتخب ہوئے تھے۔ اس دوران عمران خان نے تنقید نہ کی۔ اس عرصے میں انہوں نے زرداری صاحب کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ عمران خان سے گذارش ہے کہ وہ تنقید کرنے کا فن کسی سے سیکھ لےں۔ تقریر کرنا تو انہیں آ گیا ہے۔ زرداری صاحب کے خلاف بیان سے لگتا ہے کہ ان کے حق میں ہے۔ وہ بھی تو کرکٹ کے میدان سے وزیراعظم ہاﺅس پہنچنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کوئی بری بات نہیں۔
ہمیشہ نسل اپنے باپ کی نسبت سے آگے چلتی ہے لیکن اس میں اپنی بیوی اور بچوں کے نانا کی نسبت کو زرداری صاحب نے ترجیح دی۔ بلاول بھٹو زرداری آصفہ بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری۔ یہ نام اتنے آسان نہ تھے مگر لوگوں نے دل و جان سے قبول کیے اور اب وہ اس نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اس میں راز یہ ہے کہ اس طرح زرداری کی نسبت بھٹو فیملی کے ساتھ مضبوط ہوئی۔
یہ اب لوگ ماننے لگے ہیں کہ آصف زرداری سیاستدان کے طور پر سب سے آگے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اچھی تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے آصف زرداری کو پاکستانی سیاست کا آئن سٹائن کہا ہے۔ عمران خان کی طرح خواجہ صاحب نے بھی زرداری صاحب کے حق میں بات کی ہو گی۔ برادرم خواجہ صاحب سے کسی دن اس شاندار جملے کی تشریح بھی معلوم کروں گا۔ پچھلے دنوں زرداری صاحب نے ایک معروف صوفی کا استقبال کیا اور مہمان نوازی کی۔
ہمارے سینئر اور ممتاز نامور صحافی نوید چودھری کی کتاب ”ٹرمپ سے پہلے“ کے لیے ایک بھرپور تقریب ہوئی جس کی صدارت جناب منو بھائی نے کی۔ وہ ساری دنیا کے بھائی ہیں۔ انہیں خواتین بھی منو بھائی کہتی ہیں جبکہ اس میں انہیں مشکل پیش آتی ہے۔ لگتا ہے جیسے بھائی کے معنی بدل گئے ہیں۔ ایک دفعہ مرحوم منفرد کمپیئر اور کالم نگار برادرم دلدار بھٹی نے منو بھائی سے پوچھ لیا کہ انہیں ہماری بھابی آپ کی اہلیہ کس نام سے بلاتی ہیں۔ منو بھائی نے بے ساختہ ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا وہ مجھے دلدار کہہ کر پکارتی ہے۔ تم اپنی بیوی کو کس نام سے خطاب کرتے ہو۔ دلدار نے فوراً منو بھائی کے گھٹنے پکڑ لیے۔ اب کمپیئر کو اینکر پرسن کہا جاتا ہے۔ اکثر اینکر پرسن اینگری پرسن لگتے ہیں۔
مجیب الرحمن شامی‘ صدیق فاروق‘ نجم ولی خان اور محمد اجمل نیازی نے خطاب کیا۔ کمپیئرنگ بہت اچھے انداز میں ڈاکٹر صغرا صدف اور شاہد قادر نے کی۔ میں نے کہا کہ ابھی ٹرمپ امریکہ کے صدارتی انتخاب لڑ رہا تھا۔ اب نوید چودھری دوبارہ امریکہ جائے اور کتاب لکھے ”ٹرمپ کے بعد“۔ مجھے ٹرمپ اچھا نہیں لگتا۔ اس نے ہیلری کو کیوں ہرا دیا۔ نوید چودھری نے کہا کہ ہیلری ٹرمپ سے بھی زیادہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرتی۔ وہ پاکستان کے معاملات سے بہت واقف ہے۔
ہمارے ساتھ تو کسی امریکی صدر نے اچھا نہیں کیا جبکہ ہم اس کے حلیف تھے اور بھارت اس کا حریف تھا۔ صدر اوباما تو الیکشن کے بعد بھول ہی گیا کہ اس نے انتخابی تقریروں میں کیا کہا تھا۔ ہمیں امریکی طعنے دیتے ہیں کہ تم عورتوں کو پورے حقوق نہیں دیتے اور خود ہیلری کو رسوا کر دیا۔ اب شاید کبھی کوئی خاتون امریکی انتخابات میں امیدوار نہ بنے۔ ہم نے بے نظیر بھٹو کو دوبارہ وزیراعظم بنایا۔ بھارت نے اندرا گاندھی اور بنگلہ دیش نے حسینہ واجد کو وزیراعظم بنایا۔ اب مشرق اور مغرب کے لیے نئے سرے سے روایات کا تعین کیا جانا چاہیے۔
ہمیشہ ادیب صحافی بنتے ہیں۔ اکثر شاعر ادیب اب کالم نگار ہیں۔ نوید چودھری صحافی سے ادیب ہوا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔