قحط الرجال

دلی تمنا ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ زیادہ تر معاشرتی، سماجی، اخلاقی اور اصلاحی موضوعات پر لکھوں۔ یقین جانیے آج جب لکھنے بیٹھا تو لفظوں کے اتنے شدید قحط کا کبھی سامنا نہیں کیا جتنا آج کر رہا ہوں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں۔ کوئی ایک نوحہ ہو جو بیان کروں۔ دل کہہ رہا ہے کہ بس آج ماتم کرو۔ کیونکہ انتہا پسندی کے جس کینسر نے میرے معاشرے کو جس بْرے طریقے سے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیا ہے وہاں یہاں تو بے بسی کے عالم میں ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر جسم کے اس اس حصے کو ہی کاٹ دیا جاتا ہے جہاں یہ مہلک مرض اپنی جڑیں رکھتا ہے۔ جن باتوں کاآج ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ بہت کڑوی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی ہے کیونکہ میرا گھر، میرا آشیانہ جل رہا ہے۔ میرا ملک جل رہا ہے۔ قسم ہے اس کائنات کے مالک کی جسکی قبضے میں میری جان ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کیلئے رب کائنات نے دو جہان بنائے اور جسکے لئے ہر مسلمان ہر وقت دعا گو رہتا ہے کہ اے رَبّ کائنات قیامت کے روز ہمیں اْس ذات کی شفاعت نصیب فرمانا۔ انہیں حاضر ناظر جان کر اور مان کر لکھ رہا ہوں کہ میرے ملک میں پچھلے ایک ہفتے میں مذہب کے نام پر جو کچھ ہوا ہے اسے ضبط تحریر میں لاتے ہوئے سر ہی شرم سے نہیں جھکتا بلکہ اس پر بات کرتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا چھوٹ پڑی ہے۔ شرم آتی ہے اس جہالت پر جہاں بیان بازی میں لوگوں کو یہ اختیار ہی نہ رہے کہ وہ کس کے متعلق کیا بول رہے ہیں۔ غور کریں حضور نبی اکرمؐ کے آخری خطبے کے وہ چند انتہائی اہم نکات اْنہی کی زبانی جو سابقہ ہفتے کے حالات میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
"سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہم اسی کی حمدکرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس سے معافی مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمدؐ اس کا بندہ اور رسول ہے۔اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں۔ لوگو! میری باتیں سن لو۔ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا۔
لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اسلئے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔
لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔
لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔
میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔‘‘
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ خطبہ دراصل اس ضابطہ حیات کا خلاصہ ہے جسکا دینِ اسلام احاطہ کرتا ہے۔ اب اگر کسی کو اس خطبہ سے جانکاری ہو تو وہ سپریم کورٹ کے ستاون صفحات پر مشتمل فیصلے کے ایک ایک لفظ کو پڑھکر بتائے کہ اس میں اس خطبے سے کہاں انحراف تو دور کی بات انحراف کی ایک جھلک بھی نظر اتی ہے۔ اگر کسی میں رتی بھر عقل موجود ہے تو وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس فیصلے میں کس طرح اس خطبے اور مذہب اسلام کی تشریح کی گئی ہے۔ راقم تو بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کریگا کہ اس ضمن میں ایک مخصوص طبقے کے ردِعمل نے جہاں مجھے الفاظ کے قحط الرجال میں مبتلا کیا ہے وہاں مجھے لگتا ہے کہ میرے اس معاشرے کا وہ مخصوص طبقہ عقل کے قحط الرجال کا شکار ہے لیکن سوچتا ہوں اس میں انکا قصور نہیں۔ قصور ہے تو اس نظام کا اس تربیت کا جو دو روٹیوں کے بدلے انکے ذہنوں میں پیوند کی جا رہی ہے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن