خلائی مخلوق اور خلائی سیاست دان

ہماری سیاست اصل میں پھل جھڑیوں کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ الیکشن کے زمانے میں کسی خلائی مخلوق کا تذکرہ زبانوں پر عام ہوا۔ یہ سوال کسی صحافی نے فوجی ترجمان سے بھی پوچھ لیا کہ کیا آپ لوگوں کو خلائی مخلوق کہا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے جواب دیا کہ ہم سب خدائی مخلوق ہیں۔مگر سیاست دان خاموش رہنے والے کہاں تھے۔ خلائی مخلوق کا ورد اب تک ہوتا چلاا ٓرہاہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے نئی تجویز دی ہے کہ یہ جو فسادی اور کرپٹ سیاست دان ہیں ، انہیں ایک سیارے میں بٹھا کر خلا میں بھیج دینا چایئے تاکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ نصیب ہو جائے ۔ یہ سن کر میرے منہ سے بھی رال ٹپکی کہ میں خلا ئی سفر کے لئے سب سے پہلے اپنا نام لکھوا لوں۔ امریکہ میں پتہ نہیں کب خلائی سفر شروع ہو گا مگر جوان تو جوان ہیں بڑے بوڑھے بھی پیشگی ٹکٹیں خرید رہے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ یہ سفر مفت ہو گا اسلئے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں تو سب سے پہلے اس سفر پرجانے کا خواہش مند ہوں۔میںنے اپنی خواہش کا اظہار پالیسی ریسرچ کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر محمود شوکت سے کیا اور ان سے خلائی سفر کے لئے فٹ نیس سرٹیفیکیٹ بنانے کے لئے کہاتو انہوںنے پوچھا کہ کیا آپ کا دماغ درست ہے۔ خلائی سفر کوئی آسان معاملہ نہیں، حکومت اس کے اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لئے وہ کوئی انوکھا منصوبہ سوچ رہی ہو گی اور اگر اس کے ذہن میں کوئی نادر خیال نہیں آیا تو میری تجاویز پیش خدمت ہیں۔
ڈاکٹر صاحب پیشے کے لحاظ سے نوزائیدہ بچوں کے سرجن ہیں اور اپنی سرکاری ملازمت سے ریٹائر منٹ کے باوجود یہ کام کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ لاہور میں تین چار روز راستے بند رہنے سے وہ کئی نازک مریضوں کے آپریشن نہیںکر سکے ۔اب ان بچوں کے لئے دعائے خیر کیجئے کہ وہ سلامت رہیں۔ ان کی تو فوری سرجری ضروری تھی مگر سڑکیں بند ہونے سے گھر سے نکلنا مشکل ہو چکا تھا۔ آپریشن کیسے کرتا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ فراغت کے لمحات میں غورو فکر کرتے رہے ہیں کہ حالیہ جھگڑے میں جو قومی نقصان ہوا ہے۔ اس کا ازالہ کیسے کیاجائے اور نقصان پہنچانے والوں سے کیسے نبٹا جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ملک پر امن احتجاج کا حق دیتا ہے مگر توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی اجازت کسی ملک کا قانون نہیں دیتا۔ عراق جنگ کے خلاف دنیا بھر میں کروڑوں انسان سڑکوں پر آئے۔ٹریفالگر اسکوائیر لندن بند رہا مگر کہیں کسی نے ایک گملہ تک نہیں توڑا۔جبکہ ہمارے ہاں لوگوں نے ایک کم سن ریڑھی والے کے کیلے لوٹ کر ہڑپ کر لئے۔ موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی گئی۔، کاروںکے شیشے توڑے گئے۔اور موٹر وے پر بسیں تک جلائی گئیں۔ یہ سب کچھ کیمروں کے سامنے ہوا۔ ان لوگوں کو ہرکوئی آسانی سے پہچان سکتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں حکومت انہیں گرفتار بھی کر چکی ہے مگر جرم کی سنگینی کی نوعیت کے لحاظ سے ہر ایک کا سمری ٹرائل کر کے فوری طور پر سزا سنا دی جائے۔ جو شخص کیمرے کے سامنے ایک گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کے لئے قانون شہادت کا سرخ فیتہ کیوں استعمال کیا جائے۔جب سیف سٹی کے کیمرے از خود ٹریفک خلاف ورزی کا چالان کر دیتے ہیں اور ان چالانوں کو کہیں چیلنج بھی نہیںکیا جا سکتا تو توڑ پھوڑ، جلاﺅ گھیراﺅ کرنے والوں کو بھی کیمروں کی مدد سے پہچان کر سزائیں سنا دینی چاہییں اور لمبی چوڑی پیشیوںکے بکھیڑ ے میں نہ پڑا جائے ، آئندہ بھی یہ طے کر لیا جائے کہ جو شخص کیمرے کے سامنے توڑ پھوڑ گھیراﺅ جلاﺅ میںملوث پایا گیا تو ا سکے لئے بھی ٹریفک خلاف ورزی کی طرح جرمانے ا ور قید کا تعین کر دیا جائے ا ور فیصلے کی چٹ براہ راست ا سکے گھر اور متعلقہ تھانے میںپہنچا دی جائے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم ریاست کی رٹ کی بات کرتے ہیں اور پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اس سے ریاست پنکچر ہو جائے گی۔
حالیہ سانحے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ہنگامی طور پر ایک تقریر کی اور ریاست کی رٹ کو سختی سے نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ ایک چیف ایگزیکٹو کے طور پر انہیں یہی راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ مگر یہ ایک اتفاقیہ بات تھی کہ وزیر اعظم کا دورہ چین پہلے سے طے شدہ تھا ۔ اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے وہ ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر چند روز کے لئے چین چلے گئے ،ان کے پیچھے لاقانونیت کا بازار گرم ہو گیا۔
اگرچہ فوج کے ترجمان نے بھی وارننگ دی کہ فوج کومجبور نہ کیا جائے جس کا آئین اسے اختیار دیتا ہے کہ فوج اسے استعمال کرے مگر مظاہرین پر ان دھمکیوںکا کوئی اثر نہ ہوا۔ ویسے بھی مسئلہ ایسا تھا کہ مذہبی جذبات بھڑکے ہوئے تھے اور ان کے سامنے طاقت کاا ستعمال غیر دانش مندانہ عمل ہوتا۔ اس سے آگ مزید بھڑکتی اور شاید اسے بجھایا بھی نہ جا سکتا۔ ا سلئے حکومت نے قدرے تحمل کا مظاہرہ کیاا ور احتجاج پر امن طور پر ختم کرانے کو ترجیح دی۔ اب جبکہ توڑ پھوڑ اور گھیرﺅ جلاﺅ کے ملزموں کو گرفتار کیا جاچکا ہے تو انہیں بلا تامل سزائیں سنائی جائیں۔شہادتوں کا سرخ فیتہ استعمال نہ کیا جائے اور کیمرے سے جن لوگوں کو پہچانا جا سکتا ہے۔ انہیں ان کے جرم کے مطابق فوری سزا سنا کر جیل بھیج دیا جائے۔ مستقبل کے لئے بھی کیمروں کے سامنے کسی قسم کا جرم کرنے والوں کو لمبے چوڑے عدالتی عمل سے نہ گزارا جائے بلکہ کیمروں کی شہادت پر فیصلے دیئے جائیں۔ جب تک ہم قانون کی حاکمیت قائم کرنے کے لئے سختی روا نہیں رکھتے۔ یہ ریاست کمزور ہوتی چلی جائے گی اور ہر کوئی منہ زور بن جائے گا۔ شہروں کی قیمتی جائدادوں پر راتوں رات قبضہ جمانے والوں کے خلاف بھی سید ھے سبھاﺅ سی سی ٹی وی کیمروں کی شہادت کو قبول کیا جائے۔ اس کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ ٹریفک کے جرم پر کیمرے کی شہادت قبول ہو سکتی ہے تو قتل۔آتش زنی۔ گھیراﺅ جلاﺅ اور قبضہ مافیا کے خلاف بھی یہی کیمرے شہادت کے طور پر قبول کئے جائیں اور کسی ٹرائل کے بغیر سزائیں سنائی جائیں۔
ویسے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے فتنہ گر سیاست دانوں سے نجات کے لئے جو نسخہ تجویز کیا ہے۔ وہ بے حد مہنگا ہے۔ خلا میں راکٹ بھیجنے کی ہمت ہماری نحیف و نزار معیشت میں نہیں ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ وہ بھٹو دور کے ایک وزیر جیل خانہ جات کی مثال پیش نظر رکھیں جنہوںنے فرط جذبات میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں جیلوں کا جال بچھا دیں گے۔ آج بھی جتنے لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہونی ہے، ان کی تعداد موجودہ جیلوں میں نہیں سما سکتی۔اس لئے ان کے لئے جیلوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے۔ ویسے یہ بھی خرچ والا معاملہ ہے۔ میں تو کہوں گا کہ جیسے ڈیم کے لئے چندہ مانگا جا رہا ہے۔ اسی طرح لوگوں سے اپیل کی جائے کہ وہ اپنی بڑی بڑی حویلیاں جیلوں کے لئے صدقہ کر دیں ۔یقین کریں لوگ فسادیوں اور کرپٹ سیاست دانوں سے اس قدر تنگ ہیں کہ ان کے لئے فرنیشڈ کوٹھیاں تک بھی دینے کو تیار ہو جائیں گے تاکہ حکومت کو نئی جیلیں بنانے کی حاجت نہ پڑے اور مجرم بھی کوئی شکائت نہ کریں کہ انہیں کال کوٹھریوں میں بند کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن