دنیا کی پہلی امپورٹ ایکسپو پانچ نومبر کو شنگھائی میں شروع ہو چکی ہے۔اس کی کئی خصوصیات ہیں۔مثلاً نمائش کا رقبہ تین لاکھ مربع میٹر پر مشتمل ہے اور اس میں ایک سو تیس سے زائد ممالک یا علاقوں کے صنعت کار شریک ہو رہے ہیں۔نمائش میں شامل تین ہزار سے زیادہ اداروں میں سے دو سو سے زائد ادارے دنیا کے سب سے اہم صنعتی ادارے ہیں۔نمائش میں نئی ٹیکنالوجی کی ایک سو سے زائد اشیاء کا مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔
سی آر آئی کی جانب سے جاری ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورت حال میں مختلف ممالک کی توجہ چین کی منڈی پر مرکوز ہے۔چین میں اوسط آمدنی والے چالیس کروڑ افراد ہیں اور چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے جو دنیا کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے۔چینی صارفین کی منڈی میں بہت سی پوشیدہ صلاحیتیں موجود ہیں جس سے دنیا کے مختلف ممالک کے لیے مزید مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
مزید یہ کہ موجودہ ایکسپو سے بیرونی صنعت کاروں کو چین کی جانب سے مزید کھلی پالیسی اپنانے کی پرخلوص خواہش اور عمل کا احساس ہو سکتا ہے۔چین ہمیشہ حقیقی عمل سے کھلے پن ، اشتراک اور باہمی مفادات کے تصورات کو فروغ دیتا رہا ہے جو بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔
شنگھائی میں عالمی امپورٹ ایکسپو کے موقع پر دنیا بھر سے وفود کے ذریعے ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون میں وسعت کے امکانات پائے جاتے ہیں۔کاشغر سے شنگھائی تک دیوار چین کا مسکن پاکستانیوں کیلئے سچے جذبوں کا محور ہے۔صنعت وحرفت تجارت کے علاوہ پاکستان کی مالی امداد کے لیے مواقع تلاش کئے جا سکتے ہیں،مگر ان تفصیلات پر مزید بات چیت کئے جانے کی ضرورت ہے۔ چین نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے پر رضامندی کے اظہار کے ساتھ ساتھ معیشت، زراعت، قانون نافذ کرنے اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پندرہ معاہدوں اور یاداشتوں پر دستخط کیے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان معاہدوں سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور معاشی تعاون کو مزید وسعت دینے میں مدد ملے گی۔
امپورٹ ایکسپو کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان اور چین کے درمیان مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کی تقریب ہفتے کو بیجنگ کے تاریخی گریٹ ہال آف پیپلز میں ہوئی۔جبکہ چین کا اعلیٰ سطح کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرکے اس سے متعلق حتمی نتائج کا با ضابطہ اعلان کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے وزراءشاہ محمود قریشی، اسد عمر اور خسرو بختیار نے پاکستان کی جانب سے ان معاہدوں پر دستخط کیے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی چینی ہم منصب لی کی کیانگ سے بھی باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔
چین اور پاکستان میں طے پانے والے معاہدوں میں اسلام آباد پولیس اور بیجنگ پولیس اور پاکستان کے اعلی تعلیم کے کمیشن اور چین کی اکیڈمی آف سائنسز کے درمیان تعاون کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان کو اس وقت تجارتی خسارے کی وجہ سے شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں 42 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر آٹھ بلین ڈالر رہ گئے ہیں۔
اسی وجہ سے گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب کو دروہ کیا تھا اور پاکستان کے پرانے اتحادی اسلامی ملک سے چھ ارب ڈالر کا مالیاتی پیکج حاصل کیا تھا۔پاکستان کی حکومت کی کوشش ہے کہ چین اور دوسرے دوست ملکوں سے بھی مالی مدد حاصل کی جائے اور ان کے ہاں اپنی برآمدات کو وسعت دی جائے تاکہ ملک کی مالی مشکلات کو حل کیا جا سکے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کم سے کم قرضہ لیاجائے۔
پاکستان اور چین کے وزراءاعظم کے درمیان ملاقات کے بعد چین کے نائب وزیر خارجہ کونگ ڑان یو نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چین اپنی استطاعت کے مطابق ہی پاکستان کو مالی مدد فراہم کرے گا۔انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے کہ چین کی حکومت پاکستان کو موجودہ مالی مشکلات سے نکلنے میں ضروری مدد اور تعاون فراہم کرے گی لیکن اس کی تفصیلات اور اس سلسلے میں ممکنہ اقدامات اور مزید مذاکرات کے بعد طے کیا جائے گا۔چین کے نائب وزیر خارجہ نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت جاری منصوبوں میں کمی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو ان منصوبوں میں مزید اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔
(چائینہ ریڈیو انٹرنیشنل،بی بی سی، میگزین رپورٹ)