اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان) سپریم کورٹ میں شریف فیملی کی سزائوں کی معطلی سے متعلق نیب کی اپیل کی سماعت ، چیف جسٹس میاں ثاقب نے انجیو گرافی کے بعد کورٹ روم نمبر ایک میں خصوصی بینچ کی سربراہی کی تو کمزوری کے باعث ان کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی، چیف جسٹس نے کیس میں غصہ کا اظہار نہیں کیا، ریمارکس بھی ہلکی آواز میں دیئے،کمزوری کے باعث ان کا چہرہ پیلا اور سفیدی مائل نظر آرہا تھا، آدھے سے زائد کیس میں چیف جسٹس بہت کم اور آہستہ آواز میں بولے جبکہ سرگوشیوںمیں ساتھی ججز سے مشورے بھی کرتے رہے،خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے انہیں کامیاب انجیو گرافی ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے آرام کرنے کا مشورہ دیا ان کا کہنا تھا کہ وہ ’’عدالتی دوست‘‘(امائکس کیورائے ) بھی ہیں ، چیف جسٹس نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ڈاکٹر جنرل( ر)کیانی ساتھ والے روم میں ہیںان کا بھی مجھے آرام کا مشورہ تھا مگر قانونی ذمہ داری کااحساس تھا کیس کی حساس نوعیت کے باعث وہ کیس سن رہے ہیں، نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنی طبیعت خرابی کے باعث پٹیشن پرھنے کیلئے جونیئر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استدعا کی جو چیف جسٹس نے منظور کرلی،بعدازاں پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا کہ آپ مجھے ایڈوائس کررہے تھے میں آرام کروں مگر خود اس پر عمل نہیں کررہے ، چیف جسٹس نے انکی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا میں اپنی آئینی قانونی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کررہا ہوں ، ابھی بہت سے کام ہیں جو مجھے کرنا ہیں او روقت بھی کم ہے۔