اسلام آباد (خبر نگار)تعلیمی نظام کی خامیوں اور شدت پسند رویوں کی وجہ سے پاکستانی سماج بکھر رہا ہے ،عدم رواداری اور ہم آہنگی ریاست کے لئے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے جس سے نمٹنے کے لئے بین المذاہب اور بین المسالک مکالمے کی ضرورت ہے ،کلاس روم کا ماحول معاشرے کے تابع ہے حالانکہ معاشرے کو کلاس روم کے زیر اثر ہونا چاہئے ۔ان خیالات کا اظہار پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ میں مقررین نے کیا جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ، ڈاکٹر اے ایچ نیئر ،ڈاکٹرراغب حسین نعیمی ،محمد عامررانا ، خورشید ندیم ، رومانہ بشیر ،عمار خان ناصر ،صفدر سیال اور محمد اسماعیل خان شامل تھے ۔ ورکشاپ کا موضوع ’’سماجی ہم آہنگی ، رواداری اور تعلیم ‘‘ تھا جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے40سے زائد اساتذہ شامل تھے ۔ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ شدت پسندی ایک فکری چیلنج اس لئے ہے کیونکہ اس کی جڑیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں ۔جب تک ہم تاریخ کو تنقیدی نقطہ نظر سے نہیں پڑھیں گے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھیں گے ۔ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ ہماری روز مرہ زبان میں شدت پسندی جھلک رہی ہے ۔ ریاست کو مذہب کے نہیں آئین کے تابع ہونا چاہئے ۔ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ سماجی رویوں کی تبدیلی میں استاد کا ایک کردار تھا مگر آج کا استاد اس سے سبکدوش ہو چکا ہے کیونکہ وہ مسئلے کے حل کی بجائے مسئلے کے ایک فریق کے طور پر سامنے آیا ہے ۔
ہماری روز مرہ زبان میں شدت پسندی جھلک رہی ہے،ڈاکٹر اے ایچ نیئر
Nov 07, 2018