جن سے تاریخ دو عالم کے ہیں اوراق حسیں

صاحب اسوہ حسنہ‘ خاتم الانبیاء حضرت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کا بے مثال‘ بے نظیر‘ بے بدل اور بے عیب ہونا اظہر من الشمس ہے آپ کمالات کی اس بلندی اور رفعت پر فائز ہیں  جوجہاں اگر کوئی معاذ اﷲ آپ میں نقص تلاش کرے‘ آپ کی فضیلت کا انکار کرے یا آپ پر تنقید کرے تو اس کے ذہنی توازن پر سوال اٹھتا ہے بلکہ اس کے فاتر العقل ہونے پر تمام سلیم الطیع انسانوں کا اجماع قائم ہو جاتا ہے کیونکہ کسی بھی منصف مزاج اور عاقل شخص نے آج تک آپ کے فضائل کا انکار نہیں کیا۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا آپ کی مدحت میں رطب اللسان دکھائی دیتا ہے آپ کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کی کشش نے ہر جگہ ہر طبقے اور ہر دور کے افراد کو اپنی جانب کھینچا۔ آپ کے حسن صورت اور جمال سیرت نے پورے جہان کو متاثر کیا۔  ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ  جیسے غیر مسلم نے اپنی کتاب (The 100: Aranking of the most influential persons in history)میں آپ کو دنیا بھر کی ایک سو مؤثر ترین شخصیات میں سب سے پہلے نمبر پر ذکر کیا۔ 
آپ کی خلق حسیں‘ آپ کا خلاق حسیں
آپ ہیں پیارے نبی! شہرہ آفاق حسیں
خوبصورت ہے نبیل ان سے کتاب ہستی
 جن سے تاریخ دو عالم کے ہیں اوراق حسیں
یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں کسی کے محبت کرنیوالے‘ چاہنے والے‘ پیار کرنے والے ہوتے ہیں وہیں اس سے عداوت رکھنے والے‘ تعصب رکھنے والے اور دشمنی رکھنے والے بھی پائے جاتے ہیں۔ جس کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں جن میں ایک ’’حسد‘‘ ہے۔ اگر کسی شخص میں بہت سی خوبیاں ہوں‘ کمالات ہوں‘ نعمتیں ہوں تو اس سے حسد ہونا ایک لازمی امر ہے کہ جہاں نعمت ہے وہاں حسد ہے۔ حسد حاسد (حسد کرنے والے) کو محسود (جس سے حسد کیا جائے) کا دلی دشمن بنا دیتا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اچھا کھاتا پیتا‘ اچھا لباس پہنتا‘ اچھی سواری رکھتا یا اچھے گھر کا مالک ہے۔ 
تو فوراً کسی طرف سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’یہ تو حرام کی کمائی ہے‘‘ حالانکہ اس بات کا حقیقتاً کوئی ثبوت نہیں ہوتا بلکہ وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ایسا کہنے والا دوسرے کے پاس نعمت دیکھ کر برداشت نہیں کر سکا ہوتا اور جل بھن گیا ہوتا ہے یوں ہی اگر کوئی خوبصورت ہے یا زیادہ علم والا ہے تو اس نعمت سے محروم حاسد اپنے رویے اور الفاظ کے ذریعے اس صاحب نعمت کو نیچا دکھاتے اور کسی نہ کسی طرح اس کی تحقیر‘ تنقیص اور تضحیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ کر لینے کے بعد بھی حاسد کے حسد کی آگ نہیں بجھتی اور وہ ایک نفسیاتی اذیت کا ہمیشہ شکار رہتا ہے۔ یاد رہے ’’حسد‘‘ سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ’’ابلیس‘‘ سے سرزد ہوا اور زمین میں ’’قانبیل‘‘ سے۔ لہٰذا اگر کوئی اس بدترین صفت میں مبتلا ہے تو جلد از جلد اس سے اپنی جان چھڑا لے۔ 
تاریخ بتاتی ہے کہ جن صاحبان نعمت سے حسد کیا گیا‘ ان میں انبیائے کرام (علیہم السلام) سر فہرست ہیں۔ مثلاً بائبل میں ہے ’’ انہوں نے خیمہ گاہ میں موسیٰ پر اور خداوند کے مقدس مرد ہارون پر حسد کیا۔ (زبور ‘باب106‘ فقرہ: 16) 
یوں ہی ماہ نبوت ‘ مہر رسالت ﷺ سے بھی حسد کیا گیا کیونکہ آپ نعمت بھی ہیں‘ صاحب نعمت بھی اور نعمتیں بانٹنے والے بھی۔ ہر مخلوق سے برتر‘ ارفع‘ اعلیٰ‘ احسن‘ اجمل‘ افضل اور اکمل‘ بلکہ بقول صاحب بہار شریعت ’’کمال اس لئے کمال ہوا کہ حضورﷺ کی صفت ہے اور حضور ﷺ اپنے رب کے کرم سے اپنے نفس ذات میں کامل و اکمل ہیں‘ حضور ﷺ کا کمال کسی وصف سے نہیں‘ بلکہ اس وصف کا کمال ہے کہ کامل کی صفت بن کر خود کمال و کامل و مکمل ہو گیا کہ جس میں پایا جائے اس کو کامل بنا دے۔‘‘ آج آزادی اظہار رائے کی آڑ میں آپ جیسی صاحب کردار اور کردار ساز ہستی کی معاذ اﷲ کردار کشی کی مذموم کوشش کرنا اور قولاً فعلاً یا کسی بھی طرح آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا سبب بھی دیگر اسباب ساتھ حسد معلوم ہوتا ہے۔ 
یہ ایک نہایت قبیح عمل ہے جس کی روک تھام نہایت ضروری ہے ’’بائبل‘‘ میں آیا ’’اور اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اس آزاد کو بدی کا پردہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ کو خدا کے بندے جانو‘‘۔ (پطرس اول‘ باب 2: فقرہ 16:) 
آزادی اظہار رائے یہی ہو سکتی ہے کہ ہر شخص بلاخوف اپنا نقطہ نظر شائستگی اور دلیل کے ساتھ بیان کر سکے‘ اس کے بجائے گالی اور تضحیک کو آزادی اظہار رائے کہنا انتہائی افسوس ناک اور بے حد مضحکہ خیز ہے۔ گالی ہمیشہ وہی دے گا جس کے پاس دلیل نہ ہو۔ واضح رہے کہ علم کے میدان میں دلیل کے مقابلے میں گالی دے کر جیتنے کی کوشش کرنا سب سے بڑی شکست ہے۔ جو قوم گالی کو آزادی اظہار رائے سمجھے اسے اپنے نظام تعلیم و تربیت‘ اپنے طریق قانون و ریاست اور اپنے طرز تہذیب و ثقافت پر نظرثانی کی سخت ضرورت ہے۔ 
معلم انسانیت ﷺ نے فرمایا (ترجمہ) تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(صحیح مسلم) 
لہٰذا حکمران‘ علمائے دین‘ عوام جو جہاں بھی ہے شان جناب مصطفی ﷺ کے خلاف ہونے والی اس برائی کے تدارک کے لئے اپنا کردار ضرور ادا کرے کیونکہ 
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں 
یہی پھول خار سے دور ہے‘ یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں 

ای پیپر دی نیشن