اب کورونا ایس او پیز کے ساتھ جینا ہو گا۔!

Nov 07, 2020

ڈاکٹر رزاق شاہد

 چین کے صوبہ ’ووہان‘سے پھوٹنے والی ’کورونا‘ وباء نے دیکھتے ہی دیکھتے ’عالمی وبا ئ‘کا روپ دھار لیا اور دنیا کو لپیٹ میں لے لیا،جو دنیا میں تباہی مچانے کے بعد ایک بار پھر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ،ابتداء میںوبا ء اتنی شدید تھی یا نہیں؟ لیکن میڈیا نے جس طرح ’بریکنگ نیوز‘اور ہیجان انگیز خبروںسے سکرین کی زینت بنایا، اس میں پراپیگنڈا کا عنصر غالب تھا،اس نے دنیا بھر میں خوف وہراس پھیلادیا ،چین نے فوری احتیاطی تدابیر سے ، صوبہ ’ووہان‘ میںکرفیو لگا کر اس وباء کو باقی چین میں پھیلنے سے روکاجبکہ دنیانے خوف کے عالم میں چین سے اپنے شہریوں کو نکالنا شروع کر دیا جس سے یہ وباء دنیا بھر میں پھیل گئی،چین نے چند ماہ میں ہنگامی اقدامات سے، بہت حد تک وباء پر قابو پا لیا جبکہ دنیابھر میں پھلتی ہوئی اس وبا کو WHO نے ’عالمی وبائ‘قرار دے کر دنیا بھر میں ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ نافذ کر دی، پاکستان نے آغاز ہی میں تحمل کو مظاہرا کیا اور اپوزیشن کے شدیددباؤ کے باوجود ’ووہان‘ سے پاکستانی طلبہ کو واپس لانے سے احتراز کیا، دنیا نے ’خوف و ہراس‘ میںغلط فیصلے لیے اور ’لاک ڈاؤن‘ کر کے انسانی زندگیاں داؤ پر لگا دیں،کاروباری ،تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، بند کرنے کیساتھ سفرپر پابندی لگا دی گئی۔معاشی طور پر مستحکم چند ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے ترقی پذیر یا ٖ ترقی یافتہ ممالک اس سے متاثر ہوئے ،دنیا بھر کی طرح پاکستان میں عوام کا روزگار پرائیویٹ سیکٹر سے جڑا ہے،سرکاری ملازمین کی تعداد محدود ہے چنانچہ اکثر ممالک کی اقتصادی ترقی کی شرح منفی میں چلی گئی، ہماری بدقسمتی کہ ہم کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، سیاسی ’پوائنٹ سکورننگ‘سے باز نہیں آتے، ہمارے یہاں عالمی وباء پر بھی سیاست کی گئی، میڈیا بھی، مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرنے کی بجائے اپوزیشن کے بیانیے کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا، حکومتِ پاکستان کے اقدامات کو دنیانے سراہا، جبکہ ہمارے یہاں اس پر طرح طرح کی باتیں ہوئیں ، اکثریت نے تو کورونا کے وجود سے انکارہی نہیں کیا، اسے حکومتی سازش کہا،وہ کیا کہتے ہیں ’ جہالت نعمت ہے‘ہمارے یہاں اس کی عملی تصویر دیکھنے کو ملی،عوام نے یا تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا یا جہالت نعمت بن گئی، محدود تعداد کے علاوہ کوئیSOPsپر عمل کرنے کو تیارتھا نہ اب ہے،اس لا علاج بیماری سے صرف احتیاطی تدابیر سے ہی بچا جا سکتا ہے، احتیاطی تدابیرمیں تین بنیادی چیزیں ہیں ، سماجی فاصلہ ، بار بار صابن سے ہاتھ دھونا اور فیس ماسک ،ہمارے یہاں پہلے دونوں عمل ناممکن ہیں، سماجی فاصلہ کی تو ہمیں تربیت ہی نہیں، ہم جب تک گلے نہ ملیں، مصافحہ بلکہ معانقہ نہ کریں، ہماری تسلی و تشفی نہیں ہوتی بلکہ ایسا نہ کرنے والا مغرور سمجھا جاتا ہے، بار بار ہاتھ دھوناتو کجا، کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، سنت ہے مگر ہم اس عمل پر نہیں کرتے، جہاں پانی کی دستیابی خود ایک مسئلہ ہو وہاں بار بار ہاتھ دھونا مذاق لگتا ہے؟ہاں البتہ مسلمان ہونے کے ناتے خواتین کی اکثریت سکارف پہننے یا کم ازکم ناک ڈھانپنے کی عادی ضرور ہے،بدقسمتی سے ہمارے یہاںعوام سیاسی اختلافات کی بنا پر حکومت کی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں،ہمارے یہاں غیر ضروری سفر، غیر ضروری اجتماعات ، میل ملاپ،معمول کی بات ہے،کورونا نے ان سے بچنے کا سنہری موقع فراہم کیاہے ،کاروبار کی بندش یا وقت کی پابندی کو سنجیدہ نہیں لیا گیا، ہمارے یہاں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نمٹنے کیلیے، کاروبارجلد بند کرنے کے احکامات ہمیشہ ہوا میں اڑا ئے گئے،اب موقع ہے کہ ہر قسم کے کاروباری اوقات صبح چھ سے رات آٹھ بجے تک کر دیے جائیں،شادی یا فوتگی کے اجتماعات یا غیر ضروری رسومات ، جنہیں فضول خرچی گردانا جاتا ہے ، ان سے چھٹکارے کا سنہری موقع ہے،مذہبی حوالے سے شادی محض ’فیملی فنکشن‘ ہے، اس میں ہزاروں افراد کی شرکت نمود ونمائش کی ایک بھونڈی کوشش اور دولت کا ضیاع ہے، اسے، سختی سے،فیملی تک محدودو کردینا چاہیے،یاون ڈش کی پابندی کی طرح صرف دو تین گھنٹے تک محدودکر دینا چاہیے ،کہ وقت کا ضیاع زندہ قوموں کا شیوا نہیں،اسی طرح فوتگی کے موقع پر رسم ِقل یا چہلم جیسی رسومات پر ولیمے کا گمان ہوتا ہے،انہیں بھی محدود کرنے کا سنہری موقع ہے،دل کے مریض کو بولنے سے، سختی سے منع کیا جاتا ہے مگر ہم لاؤ لشکر کے ساتھ عیادت کو پہنچ جاتے ہیں،اگر مریض سے لمبی گفتگو سے روکا جائے تو اسے بد اخلاقی سمجھاجاتا ہے، جبھی ہم اہل و عیال سمیت عیادت کو  ترجیح دیتے ہیں، یوں بیماری کے اخراجات کے ساتھ مہمانداری کا بوجھ بھی پڑتا ہے، وہ ملک جس کی کم از کم 40فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہو، دو سے پانچ فی صد خوشحال اور آدھی آبادی ’سفید پوش‘ ہو، وہ فضول خرچی کیسے برداشت کر سکتی ہے؟ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ ہم کورونا سے بچنے کیلیے SOPsکے ساتھ جینے کی عادت اپنا لیں۔؟

مزیدخبریں