امریکی صدارتی انتخابات اور عبداللہ دیوانہ

انتخابات چوری کیئے جارہے ہیں،ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ، سپریم کورٹ جائیں گے،احتجاج کریں گے۔پاکستان میں بلدیاتی انتخابات ہوں،کسی نشست پر ضمنی انتخاب یا سینیٹ کا انتخاب ایسے الفاظ ہمیشہ سننے کو ملتے ہیں لیکن اس بار یہ الفاظ کسی پاکستانی سیاستدان کے نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہیں۔ صدر ٹرمپ انتخابات سے متعلق اپنے بیانات پر شدید تنقید کی زد میں ہیں، ان کے سابق قومی سلامتی مشیر جان بولٹن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا بیان کسی بھی امریکی صدر کا سب سے غیر ذمہ دارانہ بیان تھا، وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامی آمنے سامنے آ گئے، مشتعل افراد ایک دوسرے سے الجھ پڑے، پولیس اہلکاروں نے بیچ بچاؤ کرایا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ بائیڈن کے حامیوں نے ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔نیو یارک، میامی، مشی گن، کیلی فورنیا کے علاوہ نیویارک اور پنسلوینیا میں بھی احتجاج کیا گیا۔اب تک کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اب سابقہ امریکی صدر بن چکے ہیں لیکن وہ اپنی یہ شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔کرسی اور اقتدار کا نشہ ہوتا ہی ایسا ہے اب وہ کسی پاکستانی کو لگ جا ئے یا امریکی کو اسے چھوڑنا مشکل ہی ہوتا ہے۔پولنگ کے حتمی نتائج کا اعلان کرنے کیلئے اگلے ماہ کی 14 تاریخ رکھی گئی ہے۔یہ نتائج ٹرمپ کیلئے شاید امید سے مختلف ہوں لیکن ایسا ہونا ہی تھا۔ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں ملک پر توجہ دینے کے بجائے مسلم دشمنی پر زیادہ توجہ دی۔عدم توجہ کی وجہ سے امریکا میں دہشت گرد حملے بھی ہوئے،معیشت کو نقصان بھی پہنچااور رہی سہی کسر کورونا وائرس کی وبا نے پوری کردی۔ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں کشمیر پر مظالم ہونے کے باوجود بھارت کا مکمل ساتھ دیا بلکہ یوں کہیں کہ بھارت کی پشت پناہی کرکے واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن کو  بھی ناقابل قبول قرار دے کر ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور اب ایران پر سخت پابندیاں بھی عائد کیں۔ٹرمپ کی پالیسی وہی رہی  جوکہ ماضی میں دیگر امریکی صدور کی ہوا کرتی تھی دراصل امریکا کی پالیسی ہمیشہ ہی سے یہ رہی ہے کہ مسلم ممالک کو تقسیم کرو اور حکومت کرو۔امریکا کی کوششیں اس بار زیادہ کامیاب رہیں اور مسلم ممالک میں ٹرمپ کے دور میں ٹکرائو دیکھنے میں آیا۔ پورے خطہ عرب میں اس وقت امریکا نے اسرائیل کی بالادستی قائم کروا رکھی ہے۔ ٹرمپ  نے ہر اس مسلم ملک کو زیر کرنے کی کوشش کی جو اس کے عزائم کی راہ میں حائل ہوا۔ٹرمپ نے جو آگ  عراق اور افغانستان میں لگی تھی وہی  لیبیا اور شام میں بھی لگا دی۔ایٹمی ہتھیاروں کو جواز بنا کر مسلم ممالک پر حملہ کرنے والے امریکا نے خود بھارت جیسے دہشتگرد ملک کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرکے خطے میں توازن بگاڑنے کی کوشش کی۔مسلمان ممالکابالخصوص پاکستان کے عوام ٹرمپ کی متوقع شکست پر خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی اس وقت امریکی انتخابات ہی زیر بحث ہیں۔قومی میڈیا پر بھی ہر ہیڈ لائن میں پہلی خبر امریکا کی ہی نشر کی جارہی ہے۔عمران خان کی دو سالہ حکومت کے بعد ایسا لگتا تھا کہ پاکستانیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ تبدیلی یا تبدیلی کے نعروں سے کچھ نہیں ہوتا،نیا آنے والا بھی عوام کیلئے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا جانے والا تھا۔بالکل اسی طرح امریکا کاصدر تبدیل ہوجانے سے مسلم ممالک کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ذرا سوچیں کیا امریکی صدر تبدیل ہوجائیں تو مسلم ممالک کیلئے پالیسی تبدیل ہوگی؟ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھ لیں۔افغانستان پر حملہ بل کلنٹن کے دور میں کیا گیا  انکے بعد باراک اوبامہ صدر بنے،پاکستانی میڈیا اور عوام نے دن بھر یہ اعلان کیا کہ امریکا کے صدر مسلمان ہیں اب حالات بدل جائیں گے،ایک چینل نے لیاری کے مکینوں کے بیانات لئے جس میں معصوم پاکستانیوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا کے نئے صدر انکے قبیلے کے ہیں حتی کہ ایک چینل تو دن بھر یہ ثابت کرتا کہ اوباما کا پورا نام باراک حسین اوباما ہیں۔چلیں مان لیا اوباما مسلمان تھے،انکا تعلق لیاری والوں کے قبیلے سے بھی ہوگا،انکے نام میں حسین بھی ہوگا  لیکن کیا پالیسی تبدیل ہوئی؟اوباما نے بھی امریکی مفادات میں افغانستان میں لاکھوں افراد کا خون پانی کی طرح بہایا۔ٹرمپ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور پھر بدترین شکست اور معیشت کی تباہی کے بعد افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔اب کی بار بھی بس نام ہی تبدیل ہوگا امریکا کی مسلم ممالک کیلئے پالیسیاں نہیں۔مسلم ممالک کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔امریکا کا صدر کوئی بھی وہ مسلم ممالک کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہوگا مسلمانوں کو ایسا سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔مسلم ممالک کے ذخائر پر اب بھی وہی ناپاک نظر رکھی جائے گی،مسلمان اب بھی بدنام زمانہ امریکی جیل میں قید ہوں گے،عافیہ صدیقی کی آمد کسی صورت ممکن نہ ہوگی،مسلمان ممالک کو تقسیم کیا جائے گا اور آپس میں ہی لڑوایا جائے گا  اور یہ کھیل تب تک جاری رہے گا جب تک مسلمان ہوش کے ناخن نہیں لیں گے،اپنی دینی تعلیمات کو نہیں سمجھیں گے۔امریکی صدر بدلے نہ بدلے مسلمانوں کو اب خود کو بدلنا ہوگا صرف ارطغرل ڈرامہ دیکھنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوگی اور اگر اب بھی مسلم اتحاد کی کوشش نہ کی گئی مسلمان متحد نہ ہوئے تو مغرب انہیں اسی طرح نچاتا رہے گا اور بیگانی شادی میں عبداللہ ناچتا رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن