چودھری شجاعت حسین علیل ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مکمل صحت عطاء فرمائے اور وہ تادیر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں۔ چودھری صاحب کی علالت کی خبر سے پریشانی ہوئی ہے کیونکہ وہ صرف ایک باوقار سیاستدان ہی نہیں ہیں بلکہ ایک وضعدار شخصیت ہیں۔ ایسے انسان ہیں جو ہر حال میں روایات اور باہمی احترام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ بہترین گفتگو کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ بڑے قد کے سیاست دان ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین کتنی ہی کشیدگی کیوں نہ ہو چودھری شجاعت حسین مفاہمت و مصالحت کے بادشاہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی میدان میں آج ایسی وضعداری کم کم ہی نظر آتی ہے۔ سیاسی بحرانوں میں ہمیشہ ٹکراؤ اور تصادم کے بجائے صلح کا راستہ نکالتے کئی ایک سیاسی بحرانوں میں انہوں نے بہتر انداز میں معاملات کو سلجھاتے ہوئے تصادم سے بچایا۔ انہیں معاملہ فہمی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے ساتھ رہنے والوں نے یقیناً بڑے چودھری صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہو گا اور انہیں چودھری شجاعت سے مزید اچھی چیزیں سیکھنے کا موقع ملے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ اور عمر خضر عطاء فرمائے۔
توقع کے عین مطابق بلاول بھٹو زرداری نے میاں نواز شریف کے بیانیے سے ناصرف لاتعلقی کا اعلان کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان سے الزامات کے ثبوت بھی طلب کیے ہیں۔ بلاول کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف کی تقریر سن کر ’دھچکا‘ لگا، انتظار ہے وہ کب ثبوت پیش کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں وہ ملک و قوم کے مفاد میں مقتدر قوتوں کے ساتھ بھی کھڑے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی میاں نواز شریف سے ثبوت بھی مانگ لیے ہیں اب اگر میاں نواز شریف ثبوت پیش کرنے کی طرف جاتے ہیں تو وہ یقیناً اور غلطیاں کریں گے الزام تراشی کرتے ہوئے اپنے لیے اپنے خاندان اور جماعت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے شاطر سیاست دان کی طرح سارا وزن میاں نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ عام طور پر جلسوں میں ایسی بات نہیں کرتے اس موقف سے انہوں نے وکٹ کے دونوں طرف بیٹنگ کی ہے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف کی اپنی سیاسی جماعت ہے میں انہیں کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے وضاحت دی ہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے وہ کسی دوسرے شخص کے بیانات کے ذمہ دار نہیں ہیں نہ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے آغاز سے ہم انہی صفحات پر مسلسل لکھ رہے تھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس موومنٹ کے ساتھ نہیں چل سکتی جلد یا بدیر انہیں اس سے الگ ہونا ہی ہے۔ ممکن تھا کہ یہ اتحاد یا اس میں شامل جماعتوں میں تعلق کچھ لمبا چل جاتا لیکن میاں نواز شریف نے چند دنوں میں سب کا ساتھ چلنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس موومنٹ میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں تھیں اگر یہ بھی ساتھ نہ چل سکیں تو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا مستقبل خطرے میں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا کہ کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے ان کا نظام پر اطمینان کا اظہار ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے کردار اور حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے سب کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایسی جمہوریت پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ نے میاں نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت لانے کی ذمہ داری کسی شخص پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ بات کر کے انہوں نے میاں نواز شریف کی سب تقریروں کی نفی کر دی ہے۔ انہوں نے ناصرف میاں نواز شریف کے خیالات کو ان کی ذاتی سوچ قرار دیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ کہہ کر بات واضح کر دی ہے کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں انتہا پسند رویہ اختیار کریں یا رک کر سوچیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ یہ پیغام بھی میاں نواز شریف کے انتہا پسندانہ رویے کے خلاف ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت بارے ہم مسلسل لکھ رہے تھے کہ وہ کبھی میاں نواز شریف کے اس بیانیے کی حمایت نہیں کریں گے آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کو سامنے کر کے ساری باتیں ان سے کروا دی ہیں اب پیچھے ہٹ رہے ہیں یوں ایک مرتبہ پھر میاں نواز شریف اپنی کم عقلی اور ضد کی وجہ سے بند گلی ہیں ساؤنڈ سسٹم میں نعرے گونج رہے ہیں قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں میاں نوز شریف قدم تو بڑھ چکے لیکن مڑ کر دیکھتے ہیں تو کچھ نظر نہیں آتا۔ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے اپنے بیانیے سے ناصرف بیرونی دشمنوں کو خوش کیا ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی کسی کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں رہے۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت یا میاں نواز شریف کے ہم خیالوں کو جیسے جیسے حقیقت کا اندازہ ہوتا جائے گا وہ جان جائیں گے کہ ان کے قائد نے ذاتی مفادات کے لیے کتنے مخلص لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے بیرون ملک بیٹھ کر اپنے ملک پر حملے کیے ہیں۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ ملک دشمن ہے، وہ کام جو بھارت کرتا ہے میاں نواز شریف سیاسی جلسوں میں کر رہے ہیں اب ان پر ثبوتوں کا وزن ہے بلاول بھٹو کو ثبوت پیش کریں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں اب میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن بچے ہیں۔ مولانا کو اپنے حلوے کی تلاش ہے انہیں جہاں کہیں سے حلوے کی خوشبو آ گئی تو سمجھیں کہ وہ بھی اس خوشبو کا پیچھا کرتے کرتے منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اکیلے رہ جائیں گے میاں نواز شریف اب انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ کس کس کا بیڑہ غرق کرنا ہے اس کا فیصلہ ان کی آنے والی تقاریر کریں گی۔
بلاول بھٹو نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے انہوں نے پی ٹی آئی پر کھل کر تنقید کی ہے وہ تمام مسائل جو عام آدمی کے مسائل ہیں ان ہر بات کی ہے۔ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ عام آدمی کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے۔ حکومت کو خطرہ صرف حکومت سے ہے۔ حکومت کو خطرہ حکومت کے وزراء سے ہے۔ نالائق وزراء کے غلط فیصلوں اور نکمے مشیروں کے غلط مشوروں کی وجہ سے حکومت کی سبکی بھی ہو رہی ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت کیں بھی مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی خوش قسمت جماعت ہے کہ تمام اتحادی اس سے ناراض ہیں، ایم کیو یم ایک فیصد بھی حکومت کے ساتھ نہیں ہے ق لیگ مکمل طور پر کنارہ کشی یا علیحدگی اختیار کر چکی ہے ان کا تعلق یا اتحاد صرف حکومت کو ووٹ دینے کی حد تک ہے لیکن پھر بھی وہ حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اس سے زیادہ تعاون کسی کو نہیں مل سکتا نا ہی ملک کی سیاسی جماعتیں اس سے زیادہ تعاون کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ بہت واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بات کرنے کے عادی ہیں انہوں نے اپنے مزاج کے خلاف حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نپے تلے الفاظ میں جماعت کا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔
چودھری پرویز الٰہی نے بھی حکومتی فیصلوں پر کڑی تنقید کی ہے بالخصوص انہوں نے کسانوں پر ہونے والے تشدد کی بھرپور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا یہ نقطہ نظر ناصرف عین جمہوری ہے بلکہ عام آدمی اور کسان کے دل کی آواز ہے جب حکومت کسانوں پر ڈنڈے برسائے یا کیمیکل پھینکے تو اس ظلم کے خلاف سب کو آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس واقعے کی تحقیقات لازم ہیں کہ کیا واقعی مظاہرین پر کیمیکل پھینکا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اپنی صفوں میں دیکھنا ہو گا کہ کون ان کی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ کون ہے جو اپنی ناقص کارکردگی کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا چاہتا ہے کون ہے جس کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے کسان سڑکوں پر ہیں۔ پنجاب حکومت بالخصوص سردار عثمان بزدار کو اس واقعے کی غیر جانبدارا تحقیقات میں دلچسپی ضرور لینی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ حکومت کسانوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتی تو ان پر ڈنڈے کیوں برسا رہی ہے۔
جہانگیر ترین کی واپسی ہوئی ہے انہوں نے چینی بحران پر قابو پانے کے لیے حکومت کو تعاون کی پیشکش کی ہے۔ حکومت اس بحران سے نکلنا چاہتی ہے تو پہلے نالائق مشیروں کی مشاورت سے نکلے اگر کسی نے غیر قانونی طور پر مال بنایا ہے تو اسے ضرور پکڑیں لیکن سنی سنائی باتوں یا داستانوں پر کسی کی کردار کشی درست عمل نہیں ہے۔ حکومت نے جہانگیر ترین کو ناصرف ضائع کیا ہے بلکہ اس سے جس شعبے میں کام کیا جا سکتا تھا اس سے دور کر کے صرف اور صرف نقصان کمایا ہے۔ چینی بحران پیدا کیوں ہوا حکومت آج تک اس کا سراغ نہیں لگا سکی جتنی بھی انکوائریاں ہوئی ہیں ان میں اتنی خامیاں اور کمزوریاں ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا اب اگر جہانگیر ترین نے حکومت کو پیشکش کی ہے تو اس پر مثبت جواب آنا چاہیے کیونکہ جے ڈی ڈبلیو اپنا کام کر رہی ہے، جہانگیر ترین بھی خوش ہیں مصیبت تو عام آدمی کے لیے ہے اگر کسی کی کوشش سے حکومت بحران سے نکلتی ہے تو درحقیقت وہ عام آدمی کے لیے سہولت پیدا ہو رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ شہزاد اکبر غلط مشورے دیتے ہیں یا انہیں مکمل معلومات ہی نہیں پہنچائی جاتیں دونوں صورتوں میں شہزاد اکبر پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی حکومت کو بیک فٹ پر آنا پڑا ایسے مشورے دینے والوں کا بندوبست بھی کرنا ضروری ہے۔ ایسے غلط مشوروں سے نقصان صرف اور صرف عام آدمی کا ہوتا ہے۔