امریکی الیکشن اوربدلتی عالمی صورتحال 

سرد جنگ کے خاتمے  کے بعد یہ دنیا یونی پولر  میں تبدیل ہوئی تو  امریکا کی بالادستی کے ساتھ ہی  اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ۔  اس کو عالمی طاقت کے طور پر تسلیم کیا گیا جس کی بنیادی وجہ ڈالر کا استحکام، امریکی  کی فوجی اور  ٹیکنالوجی کے میدان میں بالادستی اور  سفارتی اثرو رسوخ کی  گہرائی تھی۔  نائن الیون کے بعد  جارحانہ امریکی  پالیسی  نے جہاں اس کے  رعب دبدبے میں اضافی کیا وہیں کئی ممالک میں پیدا ہونے والے  عدم استحکام  کی وجہ سے جو خطرات امریکی قومی سلامتی کو لاحق ہوئے ان کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔   اس بات سے قطعا نظر کے  موجودہ امریکی انتخابات کے بعد وائٹ ہاوس کا مکین کون ہے، یہ بات سوچنا زیادہ ضروری ہے کہ اب امریکی پالیسی کیا ہو گی؟  صدر جارج بش کی  جارحانہ پالیسی  باراک اوباما کے دور میں بھی جاری رہی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں  چین، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے ساتھ معاملات نمٹائے وہ بھی کسی طور پر امن کی نوید  سنانے سے قاصر ہیں۔ اگر صدر ٹرمپ کے گزشتہ دور  کی پالیسیوں پر بات کی جائے  تو   'گریٹر اسرائیل ' اور  چین کے مقابلے میں بھارتی بالادستی  کو سپورٹ کیا گیا ۔ کشمیر  اور فلسطین  کے معاملے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئیں۔ افغانستان   سے فوجی انخلاء  کے بعد کا روڈ میپ کسی کو معلوم نہیں۔  غرض یہ کہ ہر اس ملک  کو عدم استحکام اور لاقانونیت سے دوچار کیا گیا جس میں نائن الیون کے بعد  فوج کشی کی گئی ۔  اوباما کے دور میں جو   جوہری ڈیل کر کے  ایران  کے ساتھ معاملات کو  سنبھالنے کی کوشش کی گئی اس کو ٹرمپ کے دور میں 'امریکی بے وقوفی ' کہہ کر     الگ ہونے   سے لیکر   پیرس میں ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے   کنارہ کشی  اختیار کرنے  تک کی مثالیں  موجود ہیں  جنکا خمیازہ  امریکی قوم آنے والے وقت میں بھگتے گی۔    یہاں اگر  فرض کیا جائے  کہ  اگلے  پانچ سالوں میں ایران ایٹمی قوت  بن گیا  تو  امریکی  سفارتی بالادستی  کا مستقبل کیا ہو گا ؟  اس بات سے انکار  ممکن نہیں   کہ پنٹا گون   اپنی بالادستی  قائم رکھنے کے لیے  مزید جنگیں شروع کرنے سے بھی نہ ہچکچائے گا مگر ان جنگوں کا اثر ختم کرنے کے لیے جو معاشی ترقی کا راستہ چین نے اپنایا  ہے اس کا توڑ اب تک امریکی پالیسی ساز ادارے نہ کر پائے ہیں۔ وائٹ ہاوس کا مکین چاہے جو کوئی بھی ہو، وہ وہی پالیسی اپنائے گا جس سے امریکی فوجی  دنیا بھر میں چین و روس کے خلاف اپنے اڈے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔  اسی مقصد کے حصول کے لیے  امریکی صدر ٹرمپ بھی اپنے پیش رووں  کے نقش قدم پر چلتے رہے اور جنوبی ایشیاء میں  چین کے مقابلے میں بھارت کو  ہر طرح کی فوجی و مالی معاونت دیتے رہے  ۔   چین کی جانب سے  ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور سی پیک کی مخالفت کرنے کی وجہ یہی تھی  کہ کسی طرح سے چین کے بڑھتے اثرو رسوخ کو روکا جائے  ۔  اس گلو بل ورلڈ میں جہاں تمام ممالک آپس میں کئی لحاظ سے  جڑے ہوئے ہیں   وہاں چین کے معاشی و تجارتی ترقی کے  اس منصوبے کا توڑ امریکی جنگیں نہیں کر سکتیں۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا نے نائن الیون  کے بعد سے  کسی ملک یا خطے میں  کوئی بھی ایسا گیم  چینجر منصوبہ شروع نہیں کیا  بلکہ صرف  ہتھیاروں  کی فروخت کے ذریعے بدامنی اور عدم استحکام کو فروغ دیا۔ اس کی تازہ مثال امریکا کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں جن کو صرف تیل کی برآمد کے بدلے ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ یمن میں جنگ شروع کی گئی تا کہ اسلحے کی ڈیمانڈ بڑھنے پر مزید اسلحہ فروخت کر کے امریکی  منڈی کو مستحکم کیا جا سکے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو  بھارت کے مقابلے میں  ہتھیاروں کی فروخت روک دینا، این ایس جی   اور  سلامتی کونسل   کی رکنیت کے لیے بھارت کی بے جاء حمایت کرنے کی وجہ سے پاک امریکا تعلقات اتار چڑھاو کا ہی شکار رہے۔  وزیر ا عظم عمران خان کے دورہ امریکا  میں صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کا وعدہ کیا تو بھارتی وزیر اعظم  مودی نے کشمیر پر چڑھائی کر دی۔ اسے  گزشتہ سال  اپنے اندر ضم کرنے کی مذموم کوشش کی  اور اب ڈھٹائی سے  اس پر اپنا نا جائز حق جتاتا ہے جبکہ امریکی صدر  بھارت کا دورہ کر کے بھارتی لابی کی خوشامد کرتے رہے اور اس بات کی ضرورت بھی محسوس نہ کی کہ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی رہنے والے پاکستان  کا بھی دورہ کیا جائے۔ کیا امریکی صدر  پاکستان کے اس جنگ میں   جانی و مالی نقصان سے واقف نہ تھے؟    اس کڑے وقت میں جس طرح چین نے پاکستان کا ساتھ دیا  وہ امریکی   دوستی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔  چین کی جانب سے  پاکستان کے انرجی بحران، معاشی ترقی اور  سفارتی دباو کے خاتمے کے لیے ہر فورم پر آواز نے  ان قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ اگلے چند برسوں میں  چین، پاکستان،  ایران، روس اور ترکی کا اتحاد بننے جا رہا ہے۔   علاوہ ازیں  پاکستان کے ساتھ چین  کے اتحاد کی بدولت  سعودی عرب ،  متحدہ عرب امارات  اور ملائیشیا  نے پاکستان کی  اہمیت  سمجھا اور گوادر پورٹ میں  انویسٹ کرنے کی  خواہش کا اظہار کیا۔ ان تمام حالات  میں ضرورت اس امر کی ہے  کہ پاکستان  اس بدلتی صورتحال  میں  سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے  سفارتی سطح  پر موثر سفارت کاری کرے اور امریکی قیادت کو یہ باور کرائے  کہ پاکستان  کی ہر دوسرے ملک سے قربانیاں زیادہ ہیں۔  پاکستان کے  لیے اشارے بہت مثبت ہیں  لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی ادارے  تمام عالمی طاقتوں  کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے  اصولوں پر استوار کریں جن میں سب سے پہلے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ 

ای پیپر دی نیشن