ابا کیسے تھپکی دیا کرتے تھے یہ غفور چاچا کو سمجھانا بہت مشکل تھا۔وہ میرا سر درد کم کرنے کے لئے کافی دیر سے کوشش کر رہے تھے ۔ابا تھوڑا مدھم ، تھوڑے وقفے سے ، شاید ہاتھوں کو گول کر کے ، یا ہاتھوں میں نرمی پیدا کر کے رات کو میرا سر دبایا کرتے تھے ، جب میں سخت امتحانوں میں راتوں کو جاگا کرتا تھا اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوتی تھی۔لیکن پھر نجانے کیسے نیند آ جایا کرتی تھی۔ غفور چاچا کے ہاتھوں اور ابا کے ہاتھوں میں کیا فرق تھا؟ کیا یہ فرق صرف مجھے محسوس ہوتا تھا؟
آخر میں نے آنکھیں موند لیں۔وہ جاتے جاتے کہنے لگے ۔نیند کیسے نہیں آئے گی؟ میری ننھی گڑیا آخر میری ہی لوری سے سوتی ہے ۔میں نے کمرے سے باہر جاتے غفور بابا کے ہاتھوں کو غور سے دیکھا۔۔ہرباپ کے ہاتھ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں شاید۔کھردرے لیکن نرم ، گہرے بھورے لیکن روشن، کوئی ایک قدرے اپنی رنگت بدلتا ناخن کنارے سے ٹوٹا ہوا ضرور ہوتا ہے ۔ان ساری تبدیلیوں میں اک عمر کی داستان رقم ہوتی ہے ۔تو جب اباسر پر تھپکی دیتے ہیں تو دراصل وہ داستان زندہ ہو جاتی ہے ۔۔اور اک میٹھی لوری ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں نیند کی وادی میں لے جاتی ہے ۔