ٹرمپ کو کیوں نکالا!

دنیا کی نظروں میں امریکی جمہوریت قدیم اور مثالی ہے۔ وہاں جمہوری رویئے سیاستدانوں کے انگ انگ اور روئیں روئیں سے کونپلوں اور خوشوں کی مانند پھوٹتے ہیں۔ ذاتی مفادات کو تج کر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ الگور کی مثال دی جاتی ہے۔ بش سینئر جو اوبابا سے قبل صدر بش کے ابا جی تھے۔ 
ہماری سیاست اور جمہوریت میں توبڑے زیادہ ابا جی ہیں ۔سگے ابا جی، اور کم و بیش اتنے ہی منہ بولے بھی۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ میاں محمد نوازشریف کو جنرل محمد ضیاالحق نے بیٹا بنالیا تھا۔ کچھ لوگ جنرل ضیاالحق کو نوازشریف کا روحانی باپ بھی قرار دیتے ہیں شاید ان کی نظر یا ان کی دانست میں جنرل صاحب جن کی ایک اللہ لوک ہونے کی بھی شہرت تھی ،ان سے میاں صاحب نے اکتساب فیض حاصل کیا ہو۔ ہوسکتا ہے روحوں کو حاضر کرنے کے عملیات سیکھے ہوں۔
امریکی سیاست میں شاید ایک ہی باپ بیٹے کے صدر بننے کی مثال ہے۔آج ٹرمپ جوبائیڈن انتخابی معرکہ کی طرح بش سینئر اور الگور کے مابین بھی انتخابی نتائج متنازعہ ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ میں معاملہ گیا۔ اس نے بش کی حمایت میں فیصلہ سنا دیا۔ الگور کو بڑی شاباش دی جاتی ہے۔ اس نے اپنی شکست تسلیم کرلی مگر جمہوریت پر آنچ نہ آنے دی ۔ الگور کے پاس اس کے سوا آپشن ہی کیا تھا۔ کیا ہمارے سیاستدانوں کی طرح سپریم کورٹ کیخلاف بغاوت کا پہلے جھنڈا بلند کرتا پھر اس جھنڈے کے ڈنڈے سے پِل پڑتا۔ امریکہ میں عدالتوں کا بڑا احترام ہے۔ عدلیہ کے احترام کے حوالے سے ہم امریکہ سے تھوڑا آگے ہیں۔ ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کے لوگ ایک دوسرے کے جتنے بھی خلاف، جتنے بھی ویری اور دشمن ہوں‘ عدلیہ کے احترام میں قدر مشترک رکھتے ہیں۔ اپنے حق میں فیصلے کی تحسین میں بُخل نہیں کرتے۔
ٹرمپ نے انتخابات میں بھی دھاندلی دھاندلی کا غل مچادیا‘ ٹرمپ کو گلہ ہے’’ آر ٹی ایس‘‘ بند کردیا گیا۔ بھاگا بھاگا عدالتوں میں چلا گیا۔ وہاں سے جواب ملا "چَل پُھٹ"۔ ٹرمپ صاحب دلگرفتہ ہیں۔"وائٹ ہائوس نہیں چھوڑوں گا" ان کے حامیوں کی طرف سے جس طرح دھاندلی کا شور مچایاگیا اس سے لگا امریکی اس معاملے میں ہم سے آگے نکل گئے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر دھاندلی کا واویلا نتائج آنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں نتیجے مکمل ہونے سے پہلے ہی ہونے لگا۔ لیکن ٹھہریئے رکیے، دیکھئے ، سوچئے ہم نے امریکہ کو اس معاملے میں بھی کیسے پیچھے چھوڑ دیا۔ ہماری فاضل پولیس کے بارے میں ایک چٹکلہ چھوڑا جاتا ہے یا یہ مفروضہ ہے‘ لیکن حقیقت کے قریب تر ہے کہ چوری سے پہلے پولیس کو علم ہوجاتا ہے۔
گلگت بلتستان میں انتخابات ہورہے ہیں۔ اپوزیشن نے زور دیا کہ فوج نہ بلائی جائے۔ سول انتظامیہ انتخابات کرائے۔ اپوزیشن میں ہے کون: پی پی پی اور (ن) لیگ ۔ بلاول اور مریم اپنی پارٹی کی مہم کی سربراہی کررہی ہیں۔تازہ تازہ بھائی بہن بنے ہیں۔عمران خان حکومت کے خاتمے کیلئے مولانا کی مدبرانہ قیادت میں سرگرم ہیں۔گلگت بلتستان میں ان پارٹیوں کے ووٹ تقسیم ہونگے تو کس کو فائدہ ہوگا؟ الیکشن سول انتظامیہ کرا رہی ہے۔ بلاول کہہ رہے ہیں۔"سول نتظامیہ انتخابات میں دھاندلی کر رہی ہے۔ دھاندلی ہوئی تو نتائج تسلیم نہیں کریں گے"۔گویا ہم امریکہ سے بھی آگے الیکشن پہلے ہی دھاندلی کا شورشرابا۔
بلاول‘ مریم نوا اوزر عمران خان گلگت بلتستان (جی بی) میں انتخابات جیتنے کیلئے پرعزم اور دعویدار بھی ہیں۔ آزادکشمیر میں طویل اور جی بی میں مختصر عرصہ سے حکومت اُسی پارٹی کی بنتی ہے جس کی مرکز حکومت ہو۔ ان علاقوں کے لوگ سیانے ہیں۔ مرکز کے ہم قدم چلتے ہیں جس کے ساتھ تمام مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ مرکز مخالف پارٹی کو اقتدار میں لا کر یہ لوگ حکومتوں کے دست و گریبان ہونے کا تماشا ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ لازم اور پتھر پر لکیر نہیں ہے کہ مرکز والی پارٹی ہی میں آزادکشمیر اور جی بی میں جیتے گی۔ کے پی کے میں حکومتی پارٹی کبھی تسلسل سے دوسری بار نہیں جیتی تھی۔ وہاں یہ روایت ٹوٹی تو جی بی میں بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ اپوزیشن درست کہتی ہے۔ حکومت کے پلے کیا ہے۔ مہنگائی ‘ بیرروزگاری اور معیشت کی زبوںحالی‘ زور بیاں کیلئے کرپشن اور قرضوں کی انتہا کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔ ن لیگ اور پی پی پی کے پاس جی بی کو دینے کیلئے کیاہے؟ وعدے ہیں‘دعوے ہیں۔ پاکستان اور صوبوں میں یہ پارٹیاں طویل عرصہ حکمران رہی ہیں۔ وہ کونسے دور کا ماڈل جی بی میں پیش کریں گی؟ ان کے پاس ہے کیاجی بی کو دینے کیلئے!کسی کو سائیکل کا پیڈل مل گیا‘ اس نے کہا چلو اس میں سائیکل ڈلوا لوں پھر مزے ہی مزے۔ ایک شخص بڑبڑاتا جا رہا تھا۔ گھر جائوں گا جاتے دیسی گڑ‘ خالص دودھ‘ باسمتی چاولوں کی کھیر بنائوں گا۔ منجی کی' دون' پائنتی کس کے اس پر بیٹھ کے انگلی کے ساتھ مزے لیکر کھیر کھائوں گا۔ اس شخص کے ساتھ ایک اور بھی چل رہا اور اس کی خواہش سن رہا تھا۔" بھائی آپ کے پاس ان چیزوں میں سے کیا کیا ہے؟۔‘‘ ’’میرے پاس اُنگلی ہے‘‘ آج اپوزیشن کے پاس فی الحال انگلی ہی ہے۔ اپنی انگلی‘ ایمپائر کی نہیں۔ بہرحال امید پر دنیا قائم ہے۔ پیوستہ رہ شجر سے…عمران خان نے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔مریم صاحبہ اور بلاول صاحب کو اس پر بڑا 'وَٹ' چڑھا ہوا ہے۔مریم کے پاس دینے کیلئے اپنے ابا جی کی تقریروں اور وعدوں کے سوا کچھ نہیں البتہ بلاول پانچ سات سمندری جزیرے گلگت بلتستان کو دے کر وزیر اعظم عمران خان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ وائٹ ہائوس جمے رہنے کا کہہ رہے ہیں مگر ممکن نہیں معاملہ سپریم کورٹ جائیگا۔ وہاں ایک چیف آف جوائنٹ سروسز تین افواج کے کمانڈر بھی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے کچھ فاصلے پر انڈریو Andrew  ایئر بیس بھی ہے۔ جہاں تک وائٹ ہائوس سے الوداع ہونیوالے صدر کوہیلی کاپٹر میں سوار کراکے گھر پہنچایا جاتا ہے۔ ٹرمپ کو بڑے احترام سے وائٹ ہائوس سے نکال دیا جائے گا۔ پھر وہ کہتے پھریں مجھے کیوں نکالا۔ امریکیو! ہورچوپو! دکاندار کو صدر بنائو گے تو سیاست اور جمہوریت میں یہی ’’کمالات‘‘ گھولے گا۔ دکاندار حاکم چیچڑ کی طرح چمٹ جاتے ہیں۔جل جاتے ہیں تتی چمٹی سے بھی الگ نہیں ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...