غیرذمہ دارانہ بیان بازی

گزشتہ دنوں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے آرمی چیف کے متعلق ایسی غلط بات کی جس سے پوری مسلح افواج کا مورال گرانا مقصود تھا۔ ایسا بیان کسی بھی طرح سے درست نہیں اور ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان سے پوری قوم میں غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ پاکستانی قوم کسی بھی صورت میں اپنی مسلح افواج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہے اور نہ ہی بھارت کو پاکستان پر حاوی کرنے والے کو پاکستان میں کوئی عزت مل سکتی ہے۔ پاکستان کی پوری قوم کی روز اول سے یہی خواہش ہے کہ بھارت کو ہر محاذ پر نیچا ثابت کیا جائے اور ایاز صادق کا بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اگر حقیقت میں بھی ایسی کوئی بات ہوتی تو بھی قومی اسمبلی میں اس طرح کی بات نہیں کی جانی چاہئے۔ایاز صادق خود اس میٹنگ میں موجود تھے اور فیصلے ہوئے تو اب اس معاملے میں اس طرح کا بیان دینے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ کیا بھارت کو خوش کرنا مقصود تھا اور پاکستان کے عسکری اداروں کو نیچا دکھاکر آخر آپ کس کو خوش کرنا چاہتے تھے؟ اب اگر بیان دے دیا ہے تو پھر اس سے پیچھے ہٹ کر مختلف دلیلیں کیوں دے رہے ہیں؟ بیان پر قائم رہنا چاہتے تھا۔ایاز صادق کے بیان کے بعد مجبوراً آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس منعقد کرنا پڑی ورنہ فوج سیاست سے لاتعلق ہے اور سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بیان بازی کریں اور دونوں طرف سے فوج کے متعلق بیان بازی نہیں ہونی چاہئے۔
ابھی نندن کو واپس بھیجنے کا متفقہ فیصلہ ہوا تھا جس میں سیاسی و عسکری قیادت میں مکمل اتفاق رائے موجود تھا اور یہ فیصلہ کسی دباؤ یا ڈر و خوف کے بجائے پاکستان کے بڑے پن کا مظاہرہ تھااور یقیناً جنگ روکنے کے لئے فیصلہ کن عمل تھا جس سے علاقے میں امن قائم رہا اور جنگ سے خطہ بچ گیا۔ جنگ سے صرف تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بڑے بڑے مسئلے میز پر ہی حل ہوتے ہیں۔ پاکستان نے بڑے پن کا مظاہرہ کرکے خطے کو جنگ سے محفوظ رکھا لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں تھا کہ خدانخواستہ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی طرح سے بھارت سے خوفزدہ ہیں۔
ایاز صادق نے جس آرمی چیف پر قومی اسمبلی میں بے بنیاد الزام لگایا ہے اس آرمی چیف کو تو ان کے اپنے لیڈر میاں نوازشریف نے ہی آرمی چیف مقرر کیا تھا اور اگر نوازشریف کا یہ فیصلہ درست تھا تو عمران خان نے تو صرف نوازشریف کے مقرر کردہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہی کی ہے تو یہ فیصلہ کس طرح سے غلط ہوسکتا ہے۔ بہرحال اگر ن لیگ کی لیڈرشپ کی یہی روش رہی اور مسلح افواج اور ادارو ں کے خلاف ہرزہ سرائی جاری رکھی تو مستقبل میں ن لیگ کے ہمدردوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستانی مسلح افواج کو کمزور ثابت کرنے کی کسی کوشش کا ساتھ نہیں دے سکتی اور ایسی کوشش کرنے والوں کو اپنے رویئے کا بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوگا کیونکہ اس بیان کے بعد ن لیگ کے کئی ایم پی ایز نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایسی کسی بھی پالیسی سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے جس سے پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف بیانات دیکر ادارے کو کمزور کرنے کی سازش کی جائے۔ایاز صاد ق نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو سب اچھا ہی ہوتا ہے لیکن اپوزیشن میں آجائیں تو سب کچھ غلط نظر آتا ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی سیاست اور بیان بازی میں فوج کو کسی صورت نشانہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ پاکستان کی مسلح افواج سیاست سے بالکل دور ہیں اور اس ملک کے استحکام اور تحفظ کی ضامن ہیں۔ پوری قوم پاکستان کی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہے ۔ سیاستدان ایسی باتیں کرکے فوج کو خود دعوت دیتے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت کرے اور آج تک جتنے بھی مارشل لاء لگے ہیں وہ سیاستدانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے ہی لگے ہیں۔ ن لیگ اور ایاز صادق کو چاہئے کہ وہ آئندہ الیکشن کا تحمل سے انتظار کرے یا جمہوری طریقہ کار کے تحت حکومت کی تبدیلی ممکن ہو تو اس کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے ۔ بے صبری اور فوج کو نشانہ بنانے کا طریقہ کار درست نہیں اور اس طریقے سے ان کے ہمدردوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہوگی۔
نوازشریف خود بھی تحریک استقلال میں تھے اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے مارشل لاء دور میں انہیں پنجاب میں مشیر خزانہ بنایا اور پھر فوج کے ذریعے ہی وہ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے جس کا ثبوت اصغر خان کیس ریکارڈ پر موجود ہے مگر جب اقتدار میں آئے تو فوج کو پولیس کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی اور اسی خواہش پر ان کے ہر آرمی چیف سے تعلقات بگڑ جاتے تھے۔ شریف برادران خود فوج کے اقتدار میں سیاست میں نمایاں ہوئے اور جنرل ضیاء الحق نے تو یہ دعا بھی کی تھی کہ میری عمر بھی نوازشریف کو لگ جائے مگر ضیاء الحق کے اس قدر خلوص کے بدلے میاں نوازشریف نے اپنے اقتدار میں ان کے بیٹوں کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کی اور ان کا رویہ ریکارڈ پر ہے۔
وزیراعظم کوئی بھی ہو وہ آئینی طور پر صرف آرمی چیف کا تقرر کرسکتا ہے باقی کور کمانڈرز کی تقرریاں اور تبادلے براہ راست صرف آرمی چیف کے اختیار میں ہیں لیکن میاں نوازشریف کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ فوج کے اندرونی تبادلے اور تقرریاں بھی ان کی منشاء کے مطابق ہوں اسی لئے جنرل جہانگیر کرامت‘ جنرل پرویز مشرف اور جنرل راحیل شریف سمیت تقریباً ہر آرمی چیف سے ان کی کشیدگی رہی ہے اور پھر اختلافات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جاتے ہیں۔ ن لیگ کے موجودہ بیانیہ کے بعد سیاست اور عوام کے دلوں میں ان کے لئے جگہ مزید کم ہوتی چلی جائے گی اور ان کے مشیر انہیں ہمیشہ غلط راستے پر لیکر جاتے ہیں۔ ن لیگ کی نسبت پیپلزپارٹی کا رویہ اس معاملے میں ہمیشہ قابل تحسین رہا ہے حتٰی کہ پیپلزپارٹی نے سیاست میں 2لاشیں بھی اٹھائیں لیکن انہوں نے ہمیشہ تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن