جھوٹ منافقت اور تنقید پاکستانی کلچر کے نمایاں اوصاف بن چکے ہیں۔اچھے کام کی ستائش کے سلسلے میں ہم بحیثیت قوم بڑے کنجوس واقع ہوئے ہیں۔ ہم تاریک پہلو پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ روشن پہلو کو کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔احتساب کے ادارے نیب کے بارے میں ہمارا رویہ متوازن نہیں ہے ۔ جب بھی قومی لٹیروں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو وہ نیب کے ادارے کے بارے میں شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کا رویہ قومی لٹیروں کے بارے میں ہمدردانہ ہوجاتا ہے اور وہ بھی نیب کے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان کے محترم ججوں کا رویہ بھی نا قابل فہم ہے انہوں نے کبھی نیب کے ادارے کی اچھی کارکردگی کی تعریف نہیں کی البتہ وہ اکثر اوقات نیب پر گرجتے اور برستے رہتے ہیں۔پاکستان کی یونیورسٹیوں کو ان سماجی رویوں کے بارے میں تحقیقی کام کرنا چاہئے تاکہ پاکستانی قوم کی رہنمائی کی جا سکے اور انکی سمت درست کی جا سکے۔ جب سے محترم جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے نیب کے چیئرمین کی حیثیت سے منصب سنبھالا ہے حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قومی لٹیروں کو احتساب کے شکنجے میں لانے کیلئے دن رات ایک کر دیا۔وہ عمومی طور پر کسی کے دباؤ میں نہیں آئے وہ وقت کے پل صراط پر چلتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے جو شاندار خدمات انجام دی ہیں ہیں ان شاء اللہ ان کو اس کا اجر عظیم آخرت میں ملے گا۔ پاکستانی قوم اس سلسلے میں انتہائی پسماندہ ذہن ثابت ہوئی ہے۔پاکستان کے عوام چوروں اور لٹیروں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور احتساب کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد تعلیم اور تربیت کی جانب فوری توجہ دی جاتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی اور پاکستان کے عوام اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان میں غلطیاں نہ کرتے۔
نیب راولپنڈی نے پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی پلی بارگین ریکوری کی ہے بحریہ ٹاؤن کے زین ملک کیخلاف چھ ریفرینس زیر سماعت تھے۔زین ملک نے پلی بارگین کے قانون کیمطابق ریاست کو نو ارب روپے واپس کرنے کا کا معاہدہ کر لیا ہے جو نیب کی شاندار اور تاریخ ساز کامیابی ہے جس کی کھلے دل کے ساتھ ستائش کی جانی چاہئے۔نیب لاہور کی گزشتہ تین سال کی کارکردگی بھی شاندار رہی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق نیب پر شہریوں کا اعتماد بڑھا ہے۔کرپشن کے الزام میں چھ سو پچپن افراد گرفتار کیے گئے گئے جن میں 78 فیصد ملزمان کو سزائیں دی گئیں۔نیب لاھور نے پلی بارگین کے قانون کے تحت 15 بلین 81 کروڑ 70 لاکھ روپے وصول کئے۔73 بلین 23 کروڑ 70 لاکھ روپے کے ریفرنس عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔نیب لاہور نے53 بلین روپے بالواسطہ جائیداد اور اثاثوں کی صورت میں وصول کئے۔ڈی جی نیب لاہور محترم شہزاد سلیم کی خدمات قابل ستائش ہیں۔صوبہ سندھ میں گزشتہ بارہ سال سے پی پی پی برسر اقتدار ہے پاکستان میں احتساب کی تاریخ شاہد ہے کہ کہ کوئی بھی حکومت نیب کے ادارے سے تعاون نہیں کرتی۔ جب نیب حکومت میں شامل افراد کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرتی ہے اور تفتیش کا عمل شروع کرتی ہے تو اسکے راستے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ایسے مناظر پاکستان کے عوام وفاق اور ہر صوبے میں دیکھ چکے ہیں۔ ناسازگار زمینی حقائق کے باوجود نیب نے سندھ میں بھی شان دار اور تاریخ ساز کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین محترم جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے گزشتہ دنوں سندھ گورنمنٹ کو دو سو چوبیس ملین روپے کا چیک پیش کیا یہ رقم ان ٹھیکے داروں سے وصول کی گئی ہے جو سندھ کے مختلف شہروں میں سٹریٹ لائٹس لگا رہے تھے۔ نیب راولپنڈی کے ڈی جی محترم عرفان نعیم منگی نے بتایا کہ 19 ٹھیکیداروں کو غیر قانونی ٹھیکے دیئے گئے جنہوں نے مختلف بینکوں کے فیک اکاؤنٹس میں کک بیکس کی کثیر رقوم جمع کرائیں۔تحقیقات کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ چھ سو روپے کی سولر لائٹ 60 ہزار روپے میں خریدی گئی جو تاریخ کا بہت بڑا فراڈ ہے۔افسوس عوام کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کس قدر سنگدلی کے ساتھ لوٹے جا رہے ہیں۔جو لوگ قومی لٹیروں کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں انکو اپنے رویے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
سندھ میں 172 افراد کے خلاف فیک بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات جاری ہیں جن میں آصف علی زرداری فریال تالپور اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ صوبائی وزیرانور سیال اور بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض حسین شامل ہیں۔نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے بتایا کہ سندھ کے سابق ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور کاکا نے غیر قانونی طور پر سٹیل ملز کی 506 ایکڑ اراضی الاٹ کر دی جس میں سے تین سو ایکڑ اراضی جس کی قیمت ایک ارب روپے بنتی ہے واپس لی گئی ہے۔ نیب کی کارکردگی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے وقت ان قوانین کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے جو تفتیشی عمل کے دوران رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت نیب سے تعاون نہیں کرتی اور نیب کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدالتوں میں تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں جن سے کرپشن کے مقدمات کو مناسب وقت میں منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوتا ۔اس تاخیرکیلئے بھی نیب کے ادارے کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو غیر منصفانہ رویہ ہے۔ نیب لاہور کے پی آر او محمد ذیشان انور پر عزم اور سر گرم نوجوان ہیں جو میڈیا کو نیب کی کارکردگی کے سلسلے میں معلومات دینے میں متحرک رہتے ہیں۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ نیب کے ادارے کو بند کر دینا چاہیے جب تک نیب کوبند نہیں کیا جاتا پاکستان میں ترقی اور خوشحالی نہیں آ سکتی۔ اس قسم کی احتساب دشمن سوچ اور ذہنیت کے ماحول میں رہتے ہوئے نیب کے چیئرمین مرد مجاہد جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا ثابت قدم رہنا انتہائی قابل ستائش ہے۔
نیب کی قابل ستائش کارکردگی
Nov 07, 2020