جہانگیر ترین کی بیٹے کے ہمراہ برطانیہ سے واپسی
جب سے چینی سکینڈل سامنے آیا اور پھر انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آئی تو کئی پردہ نشین بے نقاب ہوئے۔ ان میں جہانگیر ترین کا نام بھی تھا‘ تاہم ملکی قانون نے شوگر سکینڈل میں ملوث کسی شخص کی ’’ہوا‘‘ کی طرف بھی نہ دیکھا۔ اس دوران جہانگیر ترین برطانیہ چلے گئے جس پر کئی قسم کی چہ میگوئیاں ہوئیں اور افواہیں پھیلائی گئیں۔ اپوزیشن نے بھی خوب واویلا اور پروپیگنڈا کیا اور حکومت پر الزام لگایا کہ ’’اپنوں‘‘ کو نوازنے اور بچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جہانگیر ترین کو باہر بھجوا دیا گیا۔ اپوزیشن رہنمائوں نے ’’گردان‘‘ جاری رکھی کہ حکومت ایک ’’مریض‘‘ نوازشریف کو واپس لانے کی دھمکیاں دے رہی ہے اور ہر لمحہ ڈراتی رہتی ہے کہ نوازشریف کو واپس لایا جائے گا۔ مریم نواز کو باہر نہیں جانے دیا جائے گا۔ اگر ملک میں قانون ہے‘ انصاف کا بول بالا اور احتساب سب کا یکساں ہے تو جہانگیر ترین کو واپس لا کر دکھائے۔ خیر حکومت بھی اپوزیشن کے ’’الزامات‘‘ کو روایتی انداز میں لیتے ہوئے ’’سنی ان سنی‘‘ کرتی رہی۔ تاہم اس حوالے سے جہانگیر ترین نے کسی بھی قسم کی بیان بازی کی بجائے خاموشی اختیار کئے رکھی اور حکومت کی پروا کی نہ اپوزیشن کے پروپیگنڈا کا کوئی نوٹس لیا۔ البتہ گزشتہ روز اپنے بیٹے علی ترین کے ہمراہ واپس پہنچ کر اپوزیشن کے تمام اندازے نہ صرف غلط ثابت کئے بلکہ حکومت کو بھی بتا دیا کہ…؎
ہزار دام سے نکلاہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
٭٭……٭٭
امریکہ میں کتا میئر منتخب
امریکہ میں صدارتی انتخاب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ بازی ٹرمپ جیت لیتے ہیں یا اقتدار کا ’’ہما‘‘ جو بائیڈن کے سر بیٹھتا ہے۔ اس کا ابھی فیصلہ ہونا ہے‘ تاہم امریکی ریاست کینٹکی کے ایک قصبے میں دریائے اوہائیو کے کنارے ’’ریبیٹ ہیش ہسٹوریکل سوسائٹی ‘‘ نے میئر شپ کے انتخابات ’’دلبر‘‘ نامی کتے کو میئر منتخب کر لیا۔دنیا کی ہر زبان اور ادب میں کتے کی وفاداری ضرب المثل تو تھی ہی‘ اب دیکھتے ہیں کہ کتے کی ’’میئر شپ‘‘ کیا گل کھلاتی اور رنگ دکھاتی ہے۔ بہرحال امریکی عوام نے کتے کو ’’میئر‘‘ منتخب کرکے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو خوب پذیرائی بخشی ہے۔ بہرحال یہ ترقی یافتہ اور ’’مہذب‘‘ دنیا کا حسن ہے۔ اس سے جو چاہے کرشمہ سازی کی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی کتے کا میئر بننا مضبوط جمہوری نظام کی دلیل ہے۔ اب کتے کا امتحان شروع ہوگا کیونکہ ایک طرف اس کی اپنی ’’برادری‘‘ ہوگی تو دوسری طرف ’’ووٹرز‘‘ ہونگے۔ امریکی ریاست میں تو کتا ہی بازی لے گیا ہے۔ بابا بلھے شاہ نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ …؎
راتیں جاگیں‘ کریں عبادت
راتیں جاگن کتے‘ تیں تھیں اتے
خصم اپنے دا در نہ چھڈ دے
بھاویں وجن جتے۔ تیں تھیں اتے
٭٭……٭٭
پیسے وزیروں سے لو اور ووٹ ’’تیر‘‘ کو دو : بلاول
سیاست کی ’’الف ب‘‘ کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ سیاست میں بلاول کی ’’انٹری‘‘ دوسری شخصیات کی نسبت قدرے پُرکشش اور ’’مرغوب و مسحور‘‘ ہے کیونکہ ان کا انداز خطابت بھی شخصیت کی طرح ’’ست رنگا‘‘ ہے۔ جس میں ہر سامع کی دلچسپی کا سامان ہوتا ہے۔ بلاول کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالف کو جس انداز خطابت سے ’’لتاڑتے‘‘ ہیں‘ وہ بھی سب کو بھاتا ہے۔ اب انہوں نے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیسے وزیروں سے لو اور ووٹ ’’تیر‘‘ کو دو۔‘‘ بھلا یہ کون سا زمانہ ہے اب۔ اور کیا پیسے دینے والے بھی اتنے سادہ ہیںکہ وہ پیسہ پانی کی طرح بہا کے پھر ووٹ نہیں گنیں گے۔ ضمیر فروشی اور کرپشن کی بنیاد جب یہیں سے پڑ جائے گی تو آگے کیا ہوگا۔ دوسری طرف علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’’ووٹوں میں جتنی لیڈ ہوگی‘ اتنے ہی زیادہ پل بنائیں گے۔‘‘ حالانکہ یہ ’’ساری باتیں جھوٹی ہیں۔ یہ غیروں نے پھیلائی ہیں۔‘‘ کیونکہ سب رونق‘ میلا‘ انتخابات تک ہے۔ پھر کون کسی کی خبر لیتا ہے۔ انتخابات کے نتائج جیسے بھی ہوں‘ بلاول بھٹو زرداری اور علی امین گنڈاپور ہی لطف اندوز ہونگے۔ عوام کا تو بقول جالب وہی حال ہوگا کہ …؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
٭٭……٭٭
پولیس کی موجودہ یونیفارم یہی رہے گی: آئی جی پنجاب
پولیس کی یونیفارم کالی رہے یا ہریالی یا پھر سفید ہو جائے ‘نہ تو پولیس کو کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی عوام کو اس سے کوئی دلچسپی ہے۔ یونیفارم بدلنے میں ’’کسی اور‘‘ کا مفاد ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں‘ تاہم اس حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکوئوں‘ چوروں‘ لٹیروں اور اغوا کاروں سے ’’مشاورت‘‘ کر لیں تو تمام ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ فائدے میں رہیںگے کیونکہ ضرورت پڑنے پر اور وارداتوں کی مناسبت سے یہی لوگ پولیس یونفارم پہنتے ہیں۔ اب ہم یہ کہنے سے تو رہے کہ پولیس چوروں‘ ڈاکوئوں‘ لٹیروں‘ اغوا کاروں جیسے کام شروع کر دیتی ہے۔ اس سارے مسئلے کو آئی جی پنجاب بخوبی جانتے ہونگے۔ بہرحال پولیس کی یونیفارم بدلیں یا نہ بدلیں‘ پولیس کلچر ضرور بدل ڈالیں۔ ورنہ ہر باشعور شخص یہی سمجھتا رہے گا کہ …؎
دستور یہاں بھی اندھے ہیں
فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام لے
ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں
عظمت کے فسانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں‘
عنوان یہاں بھی اندھے ہیں
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے‘
بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصور بھوکا ہے
سلطان یہاں بھی اندھے ہیں