معزز قارئین !امریکہ کے داراُلحکومت واشنگٹن میں سابق صدر"Donald John Trump"صاحب اور متوقع صدر "Joseph Robinette Biden"کے حامیوں میں جھڑپیں ہو رہی ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب سے وائٹ ہائوس خالی کرنے کا مطالبہ کِیا جا رہا ہے ۔ ووٹوں کی گنتی روکنے کے لئے چار امریکی عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کی درخواستیں مسترد کردِی ہیں ، اُدھر جوبائیڈن صاحب نے ہر ووٹ کو شمار کرنے کامطالبہ کِیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کے حامیوں نے قانونی جنگ روکنے کے لئے چندہ مہم شروع کردِی ہے ۔ کل کیا ہوگا؟ مجھے نہیں معلوم۔ مَیں توامریکہ میں آباد یا مقیم اپنے پیارے پاکستان کے ’’ فرزندان و دُخترانِ پاکستان !‘‘ کے بارے میں سوچ رہا ہُوں ؟
مَیں نے 1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا ۔ 11 اگست 1973ء کو لاہور سے اپنا روزنامہ ’’سیاست ‘‘ جاری کِیا، پھر میرا ذوقِ سفر مجھے میرے دو (مرحوم) صحافی دوستوں برادران انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ سرکاری دورے پر ’’ جمہوریہ تُرکیہ ‘‘ کے شہر استنبول میں "Topkapi Museum" میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور خلفائے راشدہ ؓ کے ( زیر استعمال ) تبرکات کی زیارت کی ۔ اُن میں ’’ذوالفقار علی ‘‘ بھی تھی۔ وہ دو دھاری تلوار جوغزوۂ بدر میں مالِ غنیمت میں ملی تھی ،جو آنحضرتؐ نے حضرت علی ؓ کو عطاء فرما دِی تھی۔
1980ء کے اوائل میں میرے خواب میںخواجہ غریب نوازؒ ،میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُن سے پانی مانگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے؟ ‘‘۔ پھر خواجہ غریب نوازؒ کی برکت سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروں کے دروازے کُھل گئے ۔
’’نائن الیون کے بعد ! ‘‘
معزز قارئین ! مَیں جولائی 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے ’’آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘ میں دہلی اور آگرہ جا چکا تھا لیکن ’’9 ستمبر 2001ء ‘‘(Nine Eleven Crisis)کے بعد نومبر2001ء میں صدر پرویز مشرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیو یارک گئے تو مَیں اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا۔ جنرل اسمبلی سے خطاب اور صدر مملکت پاکستان کی دوسری مصروفیات میں مجھے بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔
(اُن دِنوں ) جناب منیر اکرم پاکستان کے سفیر تھے اور نیویارک کے ’’پاکستانی قونصلیٹ ‘‘ میں برادرِ عزیز منصور سہیل "Minister of the Press" تھے جنہوں نے صدرِ پاکستان کی پاکستان واپسی کے بعد مجھے ،امریکہ اور دوسرے کئی ملکوں کے سفارتکاروں ، صحافیوں (پاکستانی صحافیوں ) سے بھی ملوایا (میرے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کے گھر میں بھی ) ۔ پھر مجھے کئی بار امریکہ جانے کا موقع ملا ۔اکتوبر 2006ء سے اوائل 2010ء تک میرے ایک اور دیرینہ دوست خواجہ شفقت جلیل ، پاکستانی قونصلیٹ میں "Minister of the Press" تھے ۔اُنہوں نے بھی امریکی ، پاکستانی اور کئی دوسرے ملکوں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کروائیں ۔
"Statue of Liberty!"
معزز قارئین !۔ 4 جولائی 1776ء کو"United States of America" نے برطانیہ عظمیٰ کی غلامی سے آزادی کا اعلان کِیا تھا لیکن امریکیوں نے 110 سال تک آزادی کی کوئی یادگار قائم نہیں کی تھی؟۔ یہ اعزاز اہل فرؔانس کو حاصل ہے جنہوں نے دوستی کی علامت کے طور پر امریکیوں کو 28 اکتوبر 1886ء کو ’’ مجسمہ آزادی ‘‘ ( Statue of Liberty) کا تحفہ پیش کِیا۔ مجھے میرے پہلے دورۂ امریکہ میں ،میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور چھوٹے بیٹے انتظار علی چوہان نے مجھے نیویارک بندر گاہ کے درمیان ’’ جزیرۂ آزادی ‘‘ (Liberty Island) میں نصب فرانسیسی مجسمہ ساز ۔ "Mr.Frederic Auguste Bartholdi"۔ کا تیار کردہ مجسمہ "Statue of Liberty" دِکھایا ، جوآزادی کی رومن ؔ دیوی "Libertas" کے نمونے پر تھا / ہے ۔
امریکہ کے بعد جب تک "Soviet Union" دوسری "Superpower" کے طور موجود تھی تو دُنیا میں ایک "Balance" موجود تھا۔ اِس کے باوجود امریکہ نے ترقی پذیر ملکوں کی آزادی (Liberty) کی پروا نہیں کی ؟۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’’ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب یا جوبائیڈن صاحب کی صدارت اور "The New World of Disorder" میں کیا ہوگا ؟ یہ الگ بات کہ ’’پاکستان تو عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہے ؟۔
’’ میرے بیٹے / پوتے کا 3 نومبر ! ‘‘
معزز قارئین ! یہ محض اتفاق ہے کہ ’’ 3 نومبر 2020ء کو امریکہ کے صدارتی انتخاب کے دِن 3 نومبر 1974ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے عرصہ دراز سے’’ لندن باسی ‘‘ میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان کی 46 ویں سالگرہ تھی اور’’ 3 نومبر 2005ء کو، لندن میں پیدا ہونے والے اُس کے بیٹے ( میرے پوتے ) حیدر علی چوہان کی 15 ویں سالگرہ ؟۔ مَیں نے کئی بار امریکہ اور لندن میں ، اپنے بیٹوں ، پوتوں ، پوتیوں کی سالگرہ میں شرکت کی ہے لیکن "Coronavirus" ؟ لیکن خدا بھلا کرے "VideoLink" ایجاد کرنے والے سائنس دان (یا کسی اور دان )کا کہ ’’ میری اپنے بیٹے ، پوتے ( چھوٹے پوتے ) اُن کی امی اپنی بہو ، ریحانہ چوہان کا کہ مَیں اُن کے ساتھ تھا اور لاہور میں میری ایک بیٹی فائزہ کاشف خان ، اُس کا شوہر ، اُن کی دونوں بیٹیاں اور میرا ایک بھتیجا قاسم علی چوہان ہمارے ساتھ تھا ۔خدا آپ کے ساتھ ہو!۔
…………………… (جاری)