قدرت اللہ چودھری،، آپکو بھلایا نہیں جا سکتا!!!!

گذشتہ ایک دو سال میں کئی قریبی دوستوں کو اللہ کے حوالے کیا ہے۔ نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد ہر مرتبہ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس آتا ہوں کیونکہ حلقہ احباب میں ایسے نایاب لوگ ہیں جنہیں ساری زندگی جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔ ایسے خوددار اور باکمال لوگوں کو نظام نے رگڑا ہے ان کو دفنانے کے بعد خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں کہ شاید میں بھی اسی بیحس معاشرے کا حصہ ہوں جو اہل لوگوں کی ناقدری کرتے ہوئے ان کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ گذشتہ چوبیس ماہ میں کئی ایسے لوگ مجھے چھوڑ گئے جو زندگی کا بہت اہم حصہ تھے۔ اب قدرت اللہ چودھری بھی انتقال فرما گئے ہیں۔ وہ چلے تو گئے ہیں لیکن جو لوگ انہیں جانتے تھے جاتے جاتے سب کو سبق دے گئے ہیں کہ کبھی احسان فراموشی نہ کرو، کبھی پیسے کو تعلق اور انسان پر ترجیح نہ دو، کبھی عہدوں کے پیچھے مت بھاگو۔ پرسکون رہنا چاہتے ہو تو زندگی کو سادہ رکھو۔ قدرت اللہ چودھری کے جنازے پر بہت لوگوں کو دیکھا لیکن مجیب الرحمن شامی جیسا کوئی نہیں تھا کیونکہ شامی صاحب کے پاس الفاظ نہیں تھے لیکن ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ درحقیقت یہ آنسو نہیں قدرت اللہ چودھری کی محبت تھی۔
قدرت اللہ چودھری ایک شریف النفس، باوقار اور انتہائی حساس دل کا مالک انسان کا نام تھا۔ ان کے اندر شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اعلیٰ ظرفی کی کوئی مثال بھی دی جائے قدرت اللہ چودھری اس پر پورا اترتے تھے۔ وہ ایک باوقار اور خوددار انسان تھے۔ زندگی بھر خودداری سے پیچھے نہیں ہٹے، زندگی بھر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، اللہ کے دیے ہوئے پر شکر ادا کیا اور ہمیشہ قناعت اختیار کی، میں نے زندگی میں کبھی نہیں سنا کہ قدرت اللہ چودھری نے اپنے بارے یا اپنے خاندان کے لیے کسی سے کوئی درخواست کی ہو۔ وہ پاکستان میں جمہوریت کے بہت بڑے علمبردار تھے اور کتابی جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ زندگی بھر حقیقی جمہوریت کی بحالی اور جمہوری بالا دستی کے لیے جدوجہد کرتے رہے، وہ زندگی بھر جمہوری لباس اوڑھے آمروں کو للکارتے رہے۔ جب بھی کبھی مارشل لاء لگا، جب کبھی ڈکٹیٹرز آئے قدرت اللہ چودھری میدان عمل میں نظر آتے تھے۔ وہ ہر جگہ ہر سطح پر جمہوریت کے لیے آواز بلند کی اور آمرانہ رویوں کو للکارتے نظر آئے۔ ٹریڈ یونین میں ان کے پائے کی شخصیت نظر نہیں آتی۔ وہ معاشرے میں، اداروں میں ہر جگہ آزادی اظہارِ رائے اور مہذب روایات کے فروغ کے لیے کام کرتے دکھائی دیے۔ قدرت اللہ چودھری نے کئی اشاعتی اداروں میں کام کرنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے یہ سارا کام صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے لیے کسی ذاتی مفاد کے بغیر کیا۔ صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی مشکلات حل کرنے اور بہتر زندگی کے لیے قدرت اللہ چودھری کی کاوشیں یاد رکھنے کے قابل ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ہمیں یاد رکھنے کی عادت نہیں ہم بھول جانے میں جلدی کرتے ہیں کاش کہ ہم اپنے محسنوں کو یاد رکھنے کی عادت اپنائیں اور احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ چکانے کی کوشش کریں۔
قدرت اللہ چودھری کو یاد رکھنے ان کے ساتھ تعلق نبھانے اور ان کی خدمات کا دنیا کے سامنے اعتراف کرنے میں برادرم مجیب الرحمن شامی نے سب سے الگ اور منفرد کام کیا ہے۔ شامی صاحب کے ساتھ جو ان کا تعلق تھا صرف وہی یہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے جس غیر معمولی انداز میں اپنے اخبار کے اداریہ میں قدرت اللہ چودھری کو یاد کیا ہے اس عمل سے میرے دل میں شامی صاحب کی عزت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ شامی صاحب نے جو لکھا ہے دل سے لکھا ہے، انہوں نے کوئی پردہ نہیں رکھا، کچھ چھپایا نہیں جو ان کے دل میں تھا اسے قلم کے سپرد کر کے اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یقینا قدرت اللہ چودھری اس کے مستحق تھے۔ 
قدرت اللہ چودھری صاحب پر لکھتے ہوئے مجھے وہ لمحے یاد آتے ہیں جب وہ غربیوں کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور کچھ نہیں تو کم از کم جو ان کی اپنی جیب اجازت دیتی اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ میں نے انہیں ہر وقت کسی ضرورت مند کے لیے فکرمند ہی دیکھا ہے اور کبھی کسی کو انکار نہیں کیا۔
میرا ان سے لگ بھگ تیس سال کا تعلق ہے۔ اس دوران میں نے کبھی ان کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی۔ میرا ان سے تعلق اس وقت سے ہے جب  میرا صحافتی و سیاسی دنیا سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جب انیس سو چھیانوے میں عمران خان کے ساتھ سیاسی سفر شروع کیا تو قدرت اللہ چودھری کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا گیا۔ اس کے بعد تو ہر روز ایک نئی کہانی ہے۔ اس طویل رفاقت میں احترام کا رشتہ سب سے مضبوط رہا۔ میں نے انہیں کبھی قہقہے لگاتے نہیں دیکھا، دھیمی مسکراہٹ ضرور ہوتی تھی۔ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھتے تھے۔ اگر کوئی ان کے مزاج کے خلاف بات کرتا تو لہجہ تھوڑا سخت ضرور ہوتا لیکن تلخی پھر بھی نہیں آنے دیتے تھے۔
میں ان کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کیا ہے ایک مرتبہ ہم اسلام آباد سے واپس آ رہے تھے۔ میں ڈرائیو کر رہا تھا گاڑی چلاتے چلاتے میری آنکھ لگ گئی ہم شاید لالہ موسیٰ کے قریب تھے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی۔ موت کا منظر نہایت قریب سے دیکھا جب بھی میں یہ سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قدرت اللہ چودھری گاڑی سے باہر نکلے اور کہنے لگے کہ اس حادثے میں ہمیں نقصان نہیں پہنچا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ یہ حادثہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ ہمیشہ احتیاط کریں اور کبھی مکمل آرام کے بغیر سفر شروع نہ کریں۔ قدرت اللہ چودھری کی دینی معاملات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ اس حادثے کے بعد لاہور پہنچنے تک وہ مختلف حوالوں سے اس حادثے کو جوڑتے رہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کی کوشش کرتے رہے۔
ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو میں ان کی زندگی میں کسی کو نہیں بتا سکتا تھا لیکن آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو میں یہ واقعہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ لوگوں کے احساسات کیا ہوتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ چار جون دو ہزار ایک کو میری ایک عمارت میں آگ لگی اور اس آگ نے سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا۔ یہ آگ علی الصبح تین بجے لگی تھی۔ گیارہ بجے قدرت اللہ چودھری صاحب میرے گھر آئے اور جس انداز میں انہوں نے اس نقصان پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ایسے کسی اپنے نے بھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا، آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ہر فیصلے میں مصلحت ہوتی ہے۔ پھر مجھے ایک لفافہ تھمایا اور کہنے لگے چودھری صاحب یہی میری جمع پونجی ہے اس لفافے میں ایک چیک تھا جس پر رقم درج تھی گوکہ وہ چیک میرے نقصان کا ازالہ تو نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چودھری صاحب یہ میری کل متاع ہے ان الفاظ کے بعد انہوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں انکار نہ کر سکوں۔ بعد میں بہت کوشش کے باوجود بھی انہوں نے وہ رقم واپس لینے سے انکار کیا۔ میں نے بہت مرتبہ ان سے درخواست کی لیکن وہ کبھی راضی نہ ہوئے۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو تھا۔ 
میں نے اور قدرت اللہ چودھری نے وزیراعظم عمران خان، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ درجنوں ملاقاتیں ہیں۔ آج وہ سارا منظر میری آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔ وہ کمال انسان تھے۔ ہمیشہ نرمی کا سبق دیتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آج بھی زندگی میں جب کہیں سخت رویہ اختیار کرتا ہوں تو قدرت اللہ چودھری سے رہنمائی ملتی ہے۔ وہ ایک غریب پرور انسان تھے۔ ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ میری ان سے آخری ملاقات دو ڈھائی ماہ قبل ہوئی، اس سے پہلے وہ میری والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے بھی آئے تھے۔ ایک دن آئے اور صرف یہ کہہ کر کر آئے کہ غم کے بعد دوستوں کے ساتھ وقت گذارنا بھی ایک ذمہ داری ہے۔ تعزیت تو کرنے سب آتے ہیں لیکن وقت گذارنا اور ساتھ بیٹھنا ایک الگ احساس ہے۔ وہ کم بولتے تھے، لوگوں سے زیادہ نہیں ملتے تھے۔ بڑے آدمیوں سے ملنے کے لیے بہت جلد راضی نہیں ہوتے تھے۔ تنہائی پسند تھے، اپنا دفتر ہی ان کی زندگی تھی۔ میرے گھر کے علاوہ جب کبھی ملاقات ہوئی تو وہ ان کے دفتر ہی ہوتی تھی۔ باوجود اس کے کہ وہ لوگوں سے بہت کم ملتے تھے میں نے جب کبھی انہیں کسی تقریب میں دعوت دی انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا ہمیشہ تقریب میں شریک ہوئے۔ بہت خوددار تھے کبھی کسی کو یہ نہیں کہا کہ مجھے فلاں جگہ سے پک کر لو اور فلسں جگہ ڈراپ کر دو۔ مجھے علم ہے کہ وہ اپنے گھر ہربنس پورہ سے روزنامہ پاکستان اور اپنے دفتر سے گھر پیدل بھی جاتے رہے ہیں۔ دفتر کی گاڑی کے باوجود وہ اپنے ڈرائیور کی سہولت کا خیال رکھتے تھے۔ اگر ان کے ڈرائیور کو کوئی کام ہوتا تو وہ ڈرائیور پر بوجھ ڈالنے کے بجائے خود پیدل گھر جاتے۔
قدرت اللہ چودھری نے اپنے صحافتی کیرئیر میں کئی مرتبہ بہت پرکشش تنخواہ اور عہدوں کو ٹھکرایا۔ ایک پیشکش کا تو میں گواہ ہوں ساری بات چیت میرے سامنے ہوئی، بڑا عہدہ تھا، دو سو فیصد تنخواہ اور مراعات تھیں۔ قدرت اللہ چودھری صاحب نے اپنی ذمہ داریوں، تنخواہ اور مراعات پر تفصیلی بات چیت کی لیکن جس انداز میں بات ختم کی وہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ یہ آٹھ نو سال پرانی بات ہے۔ اخری لفظ کہہ کر اٹھے تو کہا کہ مجیب الرحمن شامی کے میری زندگی پر بہت احسانات ہیں انہوں نے ہر مشکل میں میرا خیال رکھا ہے، پیسے معنی نہیں رکھتے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ شامی صاحب دل سے میری عزت کرتے ہیں۔ روزانہ کام کرتے ہوئے اتار چڑھاؤ بڑی بات نہیں لیکن شامی صاحب نے کبھی ارادتاً مجھے تکلیف نہیں پہنچائی نہ کبھی ایسا رویہ اختیار کیا کہ میری عزت میں کمی آئے، ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو مجھے شامی صاحب کے ساتھ ہمیشہ باندھے رکھتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ میں روزنامہ پاکستان چھوڑ کر پشاور روزنامہ مشرق چلا گیا لیکن شامی صاحب نے کبھی میرا نام پرنٹ لائن سے نہیں اتارا تو میں آپ کی یہ تین گنا تنخواہ پر بھی شامی صاحب کو نہیں چھوڑ سکتا۔ مجھے یہاں جو تنخواہ مل رہی ہے شامی صاحب اس کو بھی نصف کر دیں میں پھر بھی ان کے ساتھ ہی کام کرنے کو ترجیح دوں گا۔ شامی صاحب نے ایسے ہی قدرت اللہ چودھری کی یاد میں اپنے دستخط کے ساتھ نہیں لکھا اس کی بہت خاص وجہ ہے۔ شامی صاحب نے اپنے دیرینہ دوست کا غم منانے کا حق ادا کرتے ہوئے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ خدمات کی قدر کرو، جذبات و احساسات کو اہمیت دو، انسانوں کے جانے کے بعد بھی انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرو، جو مستحق ہے، جو باصلاحیت ہے اس کی تعریف کرو۔ قدرت اللہ چودھری کے جنازے پر شامی صاحب کے آنسو نہیں رکے، مجھے یقین ہے ان کا دل آج بھی رو رہا ہو گا۔ انہیں اپنے دفتر میں ہر طرف قدرت اللہ کی دھیمی مسکراہٹ اور ان کی ایمانداری کی خوشبو محسوس ہوتی ہو گی۔ آج جہاں ہر دوسرا شخص پیسے کے لیے برسوں کی رفاقت چھوڑنے کو ترجیح دیتا ہے قدرت اللہ چودھری احسانات یاد رکھتے ہوئے لاکوھ روپے ٹھکراتا ہے، آج جہاں عہدے پر رہتے ہوئے فوائد حاصل کرنا معمولی بات ہے وہاں قدرت اللہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتا ہے، آج جہاں لوگ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں وہاں قدرت اللہ حکمرانوں سے ملنے کے بجائے اپنے دفتر میں وقت گذارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ طرز زندگی ہمارے لیے پیغام ہے۔ کاش ہم اسے سمجھ سکیں۔

اللہ تعالیٰ قدرت اللہ چودھری کے درجات بلند فرمائے، ان کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے اور ان کے ساتھ نہایت رحم والا معاملہ فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...