پاک تھائی لینڈ آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے پر زور


کراچی(کامرس رپورٹر)تھائی لینڈ کے قائم مقام قونصل جنرل پاؤئی وائسامی نے کہا ہے کہ پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان تجارتی توازن تھائی لینڈ کے حق میں ہے جس کو متوازن کیا جا سکتا ہے اگر حکومت پاکستان کی طرف سے مشکلات باالخصوص پاکستان تھائی لینڈ آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے میں تاخیر کو مؤثر طریقے سے دور کیا جائے جو کئی سالوں سے زیر التواء ہے۔کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرونا وبائی مرض کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عائد پابندی کی وجہ سے پاکستان تھائی لینڈ ایف ٹی اے کو حتمی شکل دینے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکرات میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا لیکن اب چونکہ صورتحال بہتر ہو رہی ہے اس اہم ایف ٹی اے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا ہے جو یقیناً دونوں ممالک کے حق میں ہوگا۔ کے سی سی آئی کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے حکومت پر دونوں ممالک کے درمیان  ایف ٹی اے کو تیز کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس، سینئر نائب صدر عبدالرحمان نقی، نائب صدر قاضی ذاہد حسین، اعزازی تجارتی مشیر تھائی لینڈ عارف سلیمان اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے شرکت کی۔تھائی قونصل جنرل نے کہا کہ دوطرفہ تجارت کی صورتحال بہتر ہے لیکن اگر کراچی کی تاجر وصنعتکار برادری تھائی تاجروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرے تو اس میں مزید بہتری آئے گی۔ ہم تھائی تاجروں کے ساتھ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے خواہشمند تاجروں کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے پاکستانی تاجروں کے لیے تھائی باشندوں سے روابط استوار کرنا اور ان کی ثقافت کو سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ضرورت کے مطابق پاکستانی سامان تھائی مارکیٹ میں سپلائی کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ تھائی لینڈ کے وفود کو پاکستان لایا جا تارہا ہے اور وہ کے سی سی آئی کی مائی کراچی نمائش میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں لیکن یہ تمام تجارتی فروغ کی سرگرمیاں وبائی بیماری کے پھیلنے کے بعد سے مکمل طور پر معطل ہیں۔ مزید برآں تھائی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال پاکستان کے شمالی علاقوں کا باقاعدگی سے دورہ کرتی ہے جبکہ 90000 کے قریب پاکستانی سیاحوں نے بھی کرونا وبائی مرض سے قبل تھائی لینڈ کا دورہ کیا لیکن وبائی مرض کی وجہ سے مجموعی طور پر سیاحتی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ہمیں پرامید ہیں کہ صورتحال جلد معمول پر آجائے گی تاکہ ہم مل جل کر تجارتی سرگرمیاں انجام دے سکیں اور باہمی تجارت میں اضافے کے لیے اجتماعی طور پر کام کر سکیں۔انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ پاکستانی حکام کو تھائی لینڈ سے آنے والے سیاحوں کی تعداد کو بہتر بنانے کے لیے سیاحت کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے جیسا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ تھائی لینڈ کے سیاحوں کو پاکستان کی سیر کے دوران بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے کہا کہ پاکستان اور تھائی لینڈ مستحکم باہمی تجارتی تعلقات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن کرونا وبائی مرض کی وجہ سے اسے بری طرح نقصان پہنچا کیونکہ 2019 میں 255.37 ملین ڈالر کے مقابلے میں 2020 کے دوران تھائی لینڈ کو پاکستان کی برآمدات 44.57 فیصد کم ہوکر 141.53 ملین ڈالر رہ گئیں۔اسی طرح تھائی لینڈ سے پاکستان کی درآمدات بھی 2020 میں کم ہو کر 966.6 ملین ڈالر تک رہ گئیں جو 2019 میں 1175.69 ملین ڈالر کے مقابلے میں 17.78 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2020 میں تجارتی توازن 825.06 ملین ڈالر کے ساتھ تھائی لینڈ کے حق میں رہا جس کو کراچی اور تھائی لینڈ کی تاجر برادری کے درمیان روابط کو آسان بنا کر متوازن بنانا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ میں زرعی کاروبار، فوڈ پروسیسنگ اور آٹوموٹو پروڈکشن جیسی اعلیٰ ویلیو ایڈڈ صنعتیں ہیں۔ پاکستان ان شعبوں میں مشترکہ شراکت داری کے ذریعے ان صنعتوں کو ترقی دے سکتا ہے اور اس طرح پاکستان تھائی لینڈ کے لیے جنوبی اور وسطی ایشیا میں داخل ہونے کا گیٹ وے ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں تجارتی ثقافت کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی، دفاعی تعلیم اور مذہبی سیاحت کے شعبے میں تعاون کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے علاوہ تھائی لینڈ کو پاکستان کی سمندری خوراک کی برآمدات کو بڑھانے کے امکانات پر بھی غور کیا جا سکتا ہے ۔صدر کے سی سی آئی نے کراچی میں تھائی قونصلیٹ کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و سرمایہ کاری کے تعلقات کو بڑھانے کے لیے اپنی تمام کوششوں کے لیے مکمل تعاون اور تعاون کا یقین دلایا۔انہوں نے قائم مقام سی جی کو مشورہ دیا کہ تھائی یونیورسٹیوں کو مقامی یونیورسٹیوں کے ساتھ مشترکہ شراکت داری کے ذریعے کراچی میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی ترغیب دینے کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن