سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں

 وفاقی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ بل منظور کرانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔اس حوالے سے پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے، جس میں انتخابی اصلاحات سمیت 30بل پیش کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کے ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کی ہے، جس میں ان کی پالیسیوں اور قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اتحادیوں کے وفد نے جس میں زیادہ تر وفاقی کابینہ کے ارکان شامل تھے انتخابی اصلاحات کیلئے بھرپور حمایت کایقین دلایا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اصلاحات کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، اتحادی جماعتوں کے وفد نے اس حوالے سے وزیراعظم  سے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں بلوں کی منظوری کے لئے حکومت کی حمایت کریں گے ۔
اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات پاکستان کی بڑی ضرورت ہیں۔ انتخابی لڑائی جھگڑوں کے باعث ماضی میں تلخیاں بڑھیں ،جس سے حکومتیں غیر مستحکم ہوتی رہی ہیں، یہاں تک کہ متعدد بار نوبت مارشل لاء کے نفاذ تک جا پہنچی ۔ 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں حکومتی مداخلت تو نہیں ہوئی لیکن دھاندلی کرنے والوںکو روکنے کیلئے بھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا تھا ۔سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے منہ زور کارکنوں نے ہزاروںپولنگ سٹیشنوں پر قبضہ کر لیا اور من مانی کرتے ہوئے سینہ زوری سے ووٹ ڈلوائے ،بیلٹ بکسوں کو بھرا اور بلاشرکت غیرے عوام کی نمائندگی کا حق حاصل کر لیا۔ اس دوران مارشل لاء انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی ۔ایک سیاسی جماعت کے ہاتھ میں پہلے پورے صوبے کی اور بعد ازاں پورے ملک کی نمائندگی کا حق آ گیا تو اس نے کسی کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا۔کامیابی کے بعد وہ پارٹی اپنی مرضی کا دستور مسلط کرنے کیلئے سرگرم ہوگئی، جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلا اور فوجی کارروائی سے ایسے حالات نے یہ رخ اختیار کیا کہ بھارت کو مداخلت کا موقع مل گیا ،بھارت کی فوج سابق مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئی اوربنگلہ دیش کے قیام کو ممکن بنانے میں تمام اخلاقی اور قانونی حدود پھلانگ دیں۔ ان انتخابات میں انتظامیہ نے اپنا آئینی اورقانونی کردار ادا نہ کرکے بحران پیدا کیا، اسی طرح سات سال بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے خوب دھاندلی کی ۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے 56 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے دعوے نے مخالف سیاسی دھڑوں میں  اشتعال پیدا کر دیا ، جس کے نتیجہ میں زبر دست تحریک چلی اورآخر کار یہ انتخابات کالعدم قرار پائے لیکن نئے انتخابات کے انتظامات پر سمجھوتہ نہ ہونے کے باعث حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ فوجی مداخلت کی راہ ہموار ہو گئی،اس طرح پاکستان میں تاریخ کی طویل ترین فوجی حکومت قائم رہی۔1985ء اور بعد ازاںہونیوالے عام انتخابات کے بارے میں بھی اسی نوعیت کی شکایات منظر عام پر آئیں تاہم منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا، جنرل پرویز مشرف کے دور میں منعقدہ انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے لیکن ان انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی نوبت نہیں آئی۔ 
وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے رہنما کے طور پر 2013ء کے انتخابات دھاندلی زدہ ہونے کیخلاف بھر پور احتجاج کیا لیکن جب تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن قائم ہوا توپی ٹی آئی کی جانب سے منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہ کیا جا سکا ۔ 2018ء کے انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا، وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ شکایات کے انبار لگ گئے۔ مداخلت کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اپوزیشن نے صدائے احتجاج بلند کرنے کے باوجود اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیئے گویانتائج عملی طور پر تسلیم کرلیے گئے یوں حالات قابو میں رہے یوں قومی اور صوبائی اسمبلیاں کام کر رہی ہیں اور حکومتیں بھی اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس تناظر میں حکمرانوں پر تنقید کے وار تو جاری ہیں لیکن ان کیخلاف بغاوت ایسی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو سکی۔ 
اب وزیراعظم عمران خان اس بات پر مسلسل زور دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہونے چاہئیں اور اوورسیز پاکستانیوں کو بھی براہ راست ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ بیرون ملک بیٹھ کر ووٹ کاسٹ کر سکیں، انہیں پاکستان آکر پولنگ سٹیشنوں پر جانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔  یہ دو ایسے معاملات ہیں ،جن پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت نہ ہونے کے باعث فریقین میں اتفاق رائے نہیں ہو رہا۔فریقین اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ اپوزیشن تو رہی ایک طرف الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے حکومت الیکشن کمیشن کو بھی مطمئن نہیں کر سکی یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ای ووٹنگ پر سوالات اٹھانے کے نتیجہ میں وزیر اعظم اور ان کے رفقائے کار نے اس خود مختار قومی ادارے پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے اور الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا ہم نوا قرار دے دیا۔ جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ چکے ہیں ،یہاں تک کہ جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت من مانی کرنے پر اتر آئی ہے ۔حکومت اگر یک طرفہ طور پر پارلیمنٹ سے قوانین منظور کرالیتی ہے تو خدشہ ہے کہ اس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جائیگا ۔ ایسی قانون سازی جس پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے نہ ہو ،یہاں تک کہ حکومتی اقدام کو الیکشن کمیشن کی تائید بھی حاصل نہ ہو،ایسا قانون بن جانے اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے انتخابات کو منصفانہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم اور انکے رفقائے کار غیر جمہوری روش اختیار کرنے کے بجائے وسیع تر اتفاق رائے کو یقینی بنانے کیلئے کوشش کریں۔ حکومت نے ای ووٹنگ سمیت قومی سطح کے اہم امور طے کرتے وقت اپوزیشن کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پارلیمنٹ کی بالا دستی سوالیہ نشان بن جائے گی۔حالات کا تقاضا ہے کہ ارباب اختیار ضد اور انا کی روش چھوڑ کر اتفاق رائے کا راستہ اختیار کریں تاکہ ملک میں جاری سیاسی انتشار ختم ہوسکے ۔حکمرانوںکو چاہیے کہ انہوں نے جس آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے اس کی پاس داری کو یقینی بنائیں ۔جب یہ طے ہے کہ اہم قومی مسائل پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت آئینی تقاضا ہے تو دوسروں کو آئین اور قانون کی بالادستی کا درس دینے والے وزیراعظم خود یہ آئینی تقاضا کیوں پورا نہیں کر رہے۔وزیر اعظم کا یہ موقف کہ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا کرپشن سے ہاتھ ملانے کے مترادف ہے،اس اعتبار سے سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیا کابینہ میں بیٹھے وزیروں کی فوج ظفر موج تمام کی تمام فرشتہ صفت ہے ۔وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مسلسل کرپٹ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں مگر تین سال میں نیب اور دیگر عدالتوں کی جانب سے ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا۔یہ بات ارباب اختیار کے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کا کوئی بھی جار حانہ اقدام مستقبل میں ان کے گلے کا طوق بن سکتا ہے،وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے اقدامات ضرور اٹھائیں مگر اس کیلئے قانون سازی کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن