نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
شاعر مشرق ؒ نے بہت پہلے اس قو م کے حالات و جذبات کو دیکھتے ہوئے شاید اسی لئے کہا تھا کہ اس قوم میں جذبات و احساسات اور شجاعت کی کمی نہیں ہے بلکہ اس قوم کو بس بیدار کرنے اور اسکے منصب کو یاد دلانے کی ضرورت ہے لیکن معاملہ اس بات پر آکر اٹک جاتاہے کہ آخر یہ کام کرے گا کون؟ ہماری نظر میں اس کام کو انجام دینے کے لئے ابابیل کی فوج تو نہیں آ ئے گی اور نہ ہی اللہ تعالی اس کا م کے لئے الگ قوم پیدا کر ے گا بلکہ اس کام کو خود ہمیں ہی کرنا ہے اور یہ کام ممکن ہے ناممکن نہیں. امت مسلمہ مضبوط عمارت کی مانند ہے۔بے شک مسلمان غفلت میں سو رہے ہیں یہ دنیا بھی جانتی ہے کہ جب مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے تو مسلمانوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔
علامہ اقبال کی شاعری مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں امید کی ایسی کرن کی مانند ہے جو پڑمردہ اور یاسیت میں ڈوبے قلوب و اذہان کو حیاتِ نو کا پیغام دیتی ہے۔ حالات چاہے کتنے ہی دگرگوں اور اعصاب شکن کیوں نہ ہوں مسلسل اور درست سمت میں کی گئی جدوجہد سے تبدیل ہو جاتے ہیں بشرطیکہ کہ صبر و استقامت اور عملِ پیہم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔یہی پیغام قرآن کا بھی ہے کہ کہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ خدا کی ذات پر مضبوط عقیدے اور سعی مسلسل نے قوموں کو بڑے بڑے فرعونوں ، نمرودوں اور شدادوں سے نجات سے ہم کنار کیا۔بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینے والے معاشر ہ کس طرح خزاں و یاس ، فتنہ و فساد اور کینہ و عناد کا موسم گل و گلزار ، امن و آشتی اور محبت و اخوت میں بدل گیا۔ آقائے نامدارؐ کے تین سو تیرہ جاں نثار مایوسی اور یاس کا لبادہ اوڑھ لیتے تو کس طرح اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست سے دوچار کرتے؟
قیامِ پاکستان سے قبل ہم ایک قوم کی حیثیت سے علیحدہ وطن کی تلاش میں سرگرداں تھے اور آج ہمارے پاس مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں ایک وطن موجود ہے مگر افسوس کہ قوم کہیں نظر نہیں آتی اس کی تباہیوں اور بربادیوں کے تذکرے چہار سو زباں زدِ عام ہیں ۔یہ ملک اب اس کشتی کی مانند ہے جس سے کبھی کنارا دور ہو جاتا ہے اور کبھی یہ خود ہچکولے کھانے لگ جاتی ہے۔اس کے حکمرانوں اور باشندوں نے آدھا ملک گنوا کر بھی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ہم مسلسل انتشار در انتشار کے راستے کے راہی بنے ہوئے ہیں۔اس کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو کس نے پار لگانا ہے۔ کیا آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے؟ فرشتے بھی اسی وقت اترتے ہیں جب تین سو تیرہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں لے کر میدانِ عمل میں نکلتے ہیں۔خدا اس وقت دس قدم چل کر ہمارے پاس آتا ہے جب ہم ایک قدم چل کر اس کے پاس جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ پہلا قدم بھی خدا ہی چل کر ہمارے پاس آئے مگر سن لو یہ خدا کی سنت نہیں ہے۔
کیا ہوا کہ زردار اور ساہوکار اس ملک کی عوام کو بھوک اور افلاس کی چکی میں پیس کر ہلاک کر دینا چاہتے ہیں؟ کیا ہوا کہ اس کے بڑے بڑے وزیر اور مشیر غیر ملکی آقاں کی ملنے والی خیرات کے آگے سجدہ ریز ہو گئے ہیں اور اپنی حرص و ہوس کو خدا بنا لیا ہے؟ کیا ہوا کہ آج ہمارے سب سے بڑے صوبے کا نظامِ تعلیم عالمی بینک، یو ایس ایڈ ، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی ایجنسیوں کے ہاتھوں فروخت ہو چکا ہے اور اس کے خادمین خائنین کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں۔کیا ہوا کہ لارڈ میکالے کے شاگردوں نے ہماری تہذیب اور قومی زبان کو تعلیمی اداروں سے بے دخل کرنا شروع کر دیا ہے؟ کیا ہوا کہ سامراج کے ایجنٹوں نے ملکی معیشت کا دیوالیہ کر کے بیرون ملک ایک ایک ہزار دوکانوں پر مشتمل پلازے تعمیر کر لیے ہیں؟
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عالم اسلام کے حقیقی احیاء اور اس کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ضروری ہے کہ حضور اکرمؐ کے قائم کردہ نظام اخلاق' سیاست' معیشت اور معاشرت کا گہرا شعور اور ادراک حاصل کیا جائے اور تمام مسلمان ممالک اس نظام کو اپنے ہاس حقیقی معنوں میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت اور شورائیت کے تقاضوں کا اہتمام کیا جائے' انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے' عدل واحسان کے تقاضے پورے کئے جائیں' تعلیم' سائنس اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں پس ماندگی کو دور کرنے کی بھرپور سعی کی جائے-کیا یہ حقیقت نہیں کہ مسلمانوں اور حضور اکرمؐ کے پیروکار تہذیب' ثقافت' علم اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں صدیوں تک پوری دنیا کی امامت اور رہنمائی کرتے رہے اور دنیا بھر کے طالب علم بشمول یورپ رہنمائی اور روشنی کے حصول کے لئے عالم اسلام کی جامعات کا رخ کرتے رہے-حضور اکرمؐ سے عقیدت ومحبت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو اپنی پسماندگی اور بے وقعتی کے اسباب کا تجزیہ کرنا چاہیے اور اپنی کمزوریوں کے تدارک ونجات حاصل کرنے کے لئے فکر وتدبر سے کام لینا چاہیے-اہل پاکستان کو بطور خاص اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور پاکستان کو اسلامی تعلیمات کی عملی تجربہ گاہ بنانے کا جو وعدہ اور دعوی ہم نے1940میں کیا تھا ہمیں اس کے تقاضوں کی تکمیل کی فکر کرنی چاہیے-پاکستان کی دینی اور سیاسی قیادتوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا بھرپور احساس کرنا چاہیے او راپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی کارگردگی بہتر بنانے کی فکر کرنی چاہیے-
1947 میں پاکستان کا تصور قبول کئے جانے کے بعد قائداعظم سے کہا گیا: "Do you really believe it will become a nation. It will take fifty years. جواب میں ارشاد کیا:No a hundred years قوموں کی تشکیل و تعمیرکا عمل یہی ہے۔ فروغِ علم سے اس عمل کو متواتر اورمہمیز کیا جاسکتا ہے۔ اللہ مہربان ہو تو قائد اعظم ایسے لیڈروں کی نمود سے، اپنی مثال سے جو ہجوم کی تربیت کریں۔ آخری بات یہ ہے کہ مایوسی زہرہے۔ نظراٹھا کردیکھو تو اس قوم میں ایثاراورحسنِ عمل کی مثالیں بھی بہت ملیں گی۔