انسانی جسم اللہ پاک کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے۔ اللہ پاک نے انسان کی عمدہ صورت میں تخلیق فرمائی۔ انسانی جسم ایک بہت ہی نازک اور پیچیدہ مشین ہے جسے طبی سائنس مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ جب اس مشین میں خرابی پیدا ہوتی ہے تواسکی اصلاح کیلئے طبیب کن صلاحیتوں کا حامل ہونا چاہیے اس کیلئے رازی، ژ ابن سینا ، ابن الہیثم ، ابن رشد، علی بن عیسیٰ اور ابوالقاسم زہراوی کے حالات اور طبی خدمات کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ان شخصیات کے حالات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ماہرین میڈیکل سائنسز کے ساتھ دیگر علوم پر بھی دسترس رکھتے تھے ، اپنے پیشہ سے مخلص تھے اور مریض کا علاج عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ملک عزیز میں شعبہ طب سے منسلک ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے طب کے ساتھ ساتھ زبان و ادب میں بھی کمال پیدا کیا ، خدمت خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دکھی انسانیت کیلئے حقیقی مسیحا ثابت ہو کر اپنے پیشہ کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔اس دور میں ایسے معالجین کا ہونا رحمت و نعمت سے کم نہیں۔پروفیسر ڈاکٹر محمود ناصر ملک کا شمار بھی ایسے ہی نابغہ روزگار مسیحائوں میں ہوتا ہے جنہیں اللہ پاک نے عقل و ذہانت کی قوت سے نوازا۔آپ نے اپنی ذہانت اور فکرسے شعبہ طب کے ساتھ شاعری اور مصوری میں نام پیدا کیا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ میڈیکل کا شعبہ ایک مشکل شعبہ ہے،اسکی تعلیم اور پھر اسکی ذمہ داریوں میں سے وقت نکالنا آسان نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب باہمت ہیں کے پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ شعر و شاعری اور مصوری میں بھی منہمک ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا تعلق سرگودھا کے ایک عظیم علمی، ادبی اور رو حانی خانوادہ سے ہے۔مڈل سٹینڈرد کے امتحان میں ضلع سرگودھا میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔اسکے بعد لاہور منتقل ہوگئے ۔ سنٹرل ماڈل سکول سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ نشتر میڈیکل کالج سے گریجوایشن کی۔ طبی تعلیم کیساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا جس سے آپکی ادبی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا۔ گریجوایشن کے بعد مختلف ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں میں علاج اور درس و تدریس کی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے سر انجام دیں۔سینکڑوں طلبا ء و طالبات کو زیور تعلیم سے ٓراستہ کیا ہزاروں مریضوں کی شفا یابی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔ملکی اور غیر ملکی جرائد میں آپکے بے شمار تحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔دنیابھر کے فزیشن آپ کی تحقیق سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آپ درد دل رکھنے والے فزیشن ہیں۔ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور سے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدآج کل گلاب دیوی ہسپتال میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ علم کا شوق اور شعر و سخن سے لگائو ورثہ میں ملا۔مصوری اورشاعری کا ذوق زمانہ طالب علمی میں ہی آپ کو ودیعت کر دیا گیا۔آپ فطری شاعر ہیں۔ڈاکٹر صاحب جذبات کو شعر و سخن کے زیور سے آراستہ کرنے کی بھر پور صلاحیت اور قدرت رکھتے ہیں۔آپ نے اشعار میںجذبات و خیالات کے حقیقت پسندانہ مضامین کی ترجمانی کی۔ ہر شعر ایک خاص گداز و تاثیر رکھتا ہے۔
اردو اور پنجابی کے صف اول کے شاعر جناب منیر نیازی کے بقول ’’ محمود ناصر ملک کی شاعری مجھے انتہائی پسند ہے کہ یہ خواب و خیال کے ساتھ ایک جمال کو اپنے اندر سموتی ہے۔ ان کی نظم اور غزل یکساں خوبی کی حامل ہیں ۔ مجھے انکے ہاں تازگی اور ندرت دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا دریچہ جو وا ہوتا ہے تو کسی خوب رو تصور کو افشاں کردیتا ہے۔ محمود ناصرملک شاعری کو ہفت آسماں نہیں بناتے۔ چھوٹی بحر کی غزلیں بہت متاثر کن ہیںاور نظمیں کسی ان سنی کہانی جیسی ہیں۔مجھے محمود ناصر ملک کی شاعری پڑھتے ہوئے مسرت ہوتی ہے‘‘۔
آپ کی شاعری مختلف کتابوں کی صورت میں محفوظ ہوکر مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔’’ بادل جھکتے پانی پر‘‘ کے حوالے سے جناب نذیرقیصر نے کیا خوب کہا ’’بیداری کے افق پر خواب کی طرح طلوع ہونے والی اس طلسمی کتاب کیلئے ہم محمود ناصر کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہمیں اس خوبصورت شعری کائنات میں داخل ہونے کی اجازت دی‘‘۔کتاب کا ہر شعر اور نظم پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں:
تھکن سے چور ہوتے جا رہے ہیں
کنارے دور ہوتے جا رہے ہیں
گھٹن ہر روز بڑھتی جا رہی ہے
ہوا سے دور ہوتے جا رہے ہیں
ملا ہے جب سے تیرا ساتھ ناصر
بہت مشہور ہوتے جا رہے ہیں