سرداوے، کٹیائیں اور محلات 


دہلی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، کی درگاہ کے قریب ایک احاطے میں اکبر ثانی اور مرزا فخرو کی قبریں ہیں۔ ان دونوں قبروں کے درمیان ایک خالی سرداوہ (قبر کیلئے رکھی گئی جگہ) موجود ہے ۔ یہ جگہ بیچارے بہادر شاہ ظفر نے اپنے مدفن کیلئے رکھی تھی لیکن اسے دلی کی خاک میں سونا نصیب نہ ہوا۔ رنگون کی مٹی میں دفن اس آخری مغل فرمانروا کے کہنے میں کتنا دکھ اور حسرت ہے: 
 کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کیلئے 
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں 
جسٹس شاہد حسن صدیقی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ میں یہ گوجرانوالہ میں سیشن جج رہے ۔ ان دنوں سیشن ہائوس کی عمارت سیالکوٹ روڈ پر ہوا کرتی تھی ۔ اب یہ عمارت ڈھا کر عدالتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ سیشن ہائوس کے سامنے سڑک پار ایک قدیمی قبرستان موجود ہے ۔ قبرستان اور سیشن ہائوس کے درمیان صرف ایک سڑک حائل تھی۔ جسٹس صدیقی کے والد محترم وفات پا گئے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ جج صاحب کے والد محترم کی میت کو کہیں دور پار آبائی قبرستان میں تدفین کیلئے لیجایا جائیگا۔ لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہانہ رہی جب اس اللہ کے بندے نے اپنے سرکاری گھر کے سامنے قبرستان میں اپنے والد محترم کو دفن کر دیا۔ پتہ چلا کہ آبائی قبرستان تو کیا پاکستان بھر میں ان کا کہیں کوئی ملکیتی مکان ہی نہیں۔ 
تاریخ کی کتابوں میں امام احمد بن حنبل کے جنازے کا بہت ذکر ملتا ہے ۔ لاکھوں مسلمانوں نے انکی نماز جنازہ پڑھی ۔ میرے شہر گوجرانوالہ میں حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی نماز جنازہ سے بڑا جنازہ آج تک نہیں ہوا۔ یہ گوجرانوالہ کی تاریخ کا نماز جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ آبادی بے تحاشا بڑھ جانے کے باجود شاید یہ ریکارڈ نہ ٹوٹ سکے ۔ اندرون شہر میں مولانا محمد اسماعیل سلفی کا ساڑھے چار مرلہ کا یک منزلہ مکان اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں مولانا چھوڑ کر گئے ۔ اسی گلی کے دوسرے سرے پر چند مرلوں کے مکان میں بیرسٹر عثمان ابراہیم ایم این اے رہائش پذیر ہیں۔ لنکنز ان سے فارغ التحصیل یہ بیرسٹر 1985ء سے ممبر اسمبلی چلے آرہے ہیں۔ صوبائی وزیر بھی رہے ہیں اور مرکزی وزیر بھی ۔ برسوں انہیں کیا کیا ترغیبات نہیں دی گئیں لیکن یہ ہر داغ ہے دل میں بجز داغ ندامت ‘ کی تصویر بنے رہے ۔ ان سے سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کی دیانت اور استقامت کے قائل ہیں ۔ اوائل عمر سے ہی نماز روزے کے پابند۔ پھر یہ پابندی لندن میں بھی قائم رہی ۔ 
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی 
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی 
ایک پرانے ماڈل کی چھوٹی سی گاڑی خود ڈرائیوکرتے سوئی گیس استعمال کرنیوالے صنعتکاروں کی بڑی بڑی گاڑیوں کے پاس سے خاموشی سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مہنگی سیاست کے اس دور میں آنوں ٹکوں سے سیاست کرنے والے اور کتنے لوگ رہ گئے ہیں؟ 
سید ضمیر جعفری دنیائے ادب کے بادشاہ تھے ۔ اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے ریٹائرڈ ہوئے تو خواہش کے باوجود اسلام آباد نہ ٹک سکے ۔ شہر اسلام آباد میں ان کا کوئی گھر ، فلیٹ یا ٹھکانہ نہ تھا۔ اسلام آباد میں کئی شاعروں ادیبوں کو پلاٹ دلوانے والا یہ سید زادہ اپنے لئے دست سوال دراز نہ کر سکا۔ 20جنوری 1987ء کو ضمیر جعفری نے ایک نظم لکھی ۔ نظم کا نام تھا ’’ضمیر سڑک‘‘۔ ڈسٹرکٹ کونسل جہلم نے ایک سڑک کا نام ضمیر جعفری روڈ رکھ دیا۔ غالباً یہ سڑک ان کے گائوں چک عبدالخالق کو جاتی تھی ۔ یہ نظم انکے مجموعہ ’’ضمیر ظرافت‘‘ میں موجود ہے ۔ پہلے یہ ننھی منی نظم پڑھ لیں:
شکریہ جہلم کی ضلعی کونسل کا شکریہ 
رکھ دیا اک سڑک کا نام میرے نام پر 
جن سکوں گاہوں میں کھیلا میرا بچپن ضمیر 
اس مسافت کی رفاقت دور تک رکھتا ہوں میں 
یوں لیا آخر مری خانہ بدوشی نے خراج 
گھر تو میں رکھتا نہیں لیکن سڑک رکھتا ہوں میں 
اس نظم میں سب سے اہم آخری مصرعہ ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتاہوں۔ اس میں ضمیرجعفری کو اپنا گھر نہ ہونے کا بڑی شدت سے احساس ہے ۔ پھر یہ احساس فطری بھی ہے۔ ایک چھوٹا سا گھر جس کے آنگن میں چاند جھانک سکے ۔ جہاں دھوپ کا گزر ہو ۔ جس کی چھت تلے کوئی بھلامانس اپنے بال بچوں سمیت رہ سکے ۔ جہاں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو مالک مکان کرایہ لینے نہ آسکے۔ یہ ایک بنیادی ضرورت ہے ایک جوڑے کی  لیکن جب تک ہمارے ملک میں یہ طے نہ ہو کہ ایک فرد اپنے ملک کی کتنی زمین رہائشی استعمال میں لا سکتا ہے ؟ ایک فرد کیلئے زمین کی حد ملکیت کیا ہوگی ؟ کسی بھی سرکاری افسر کو دوسرا رہائشی پلاٹ نہ عنایت فرما یا جاسکے ۔ ملک کی زرعی زمین کسی چہیتے کو الاٹ نہ ہو سکے ۔ اس وقت تک ہمار ے ملک میں محلات بے گھروں کی بے گھری کا تمسخر اڑاتے رہیں گے۔ 
یہ سرداوے ، یہ کٹیائیں یہ محلات ،اول و آخر فنا ۔ ظاہر و باطن فنا ۔ پھر کئی سرداوے بہادر شاہ ظفر کے سرداوے کی طرح خالی مگر عبرت سے بھرے رہ جاتے ہیں۔ آخر میں پتلون پوش درویش شعیب بن عزیز کا تبرکاً ایک شعر سن لیں ۔ جواں مرگ دانشور سراج منیر نے یہ شعر سن کر کہا تھا ۔ شعیب بھائی ! آئو کمرے سے باہر نکل جائیں۔ یہ شعر چھت تلے سننے کا نہیں۔ 
خوب ہو گی یہ سرا  دہر کی  لیکن اس کا 
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم نے ٹھہرنا کب ہے 

ای پیپر دی نیشن