زہر یلے دھوئیں کے بادل


آجکل باہر نکلیں تو لاہور سمیت پاکستان کے اکثر شہروںمیں گمان ہوتا ہے کہ بادلوں نے سایہ کیاہوا ہے اور ا بھی بارش کی پھوار شروع ہو جائیگی۔ میرے ایک دوست سجاد صاحب جو ذرا دیر سے اٹھنے کے عادی ہیں دوپہر میں مجھے ملے تو پوچھنے لگے کیا صبح کسی وقت بارش ہوئی تھی۔ دراصل یہ بادل تو ہیں لیکن بارش والے نہیںبلکہ زہریلے دھوئیں کے ۔ اس زہریلے دھوئیں یعنی ’’سموگ‘‘ کی تکنیکی تفصیل میں جائے بغیر اتنا سمجھ لیں کہ یہ فضائی آلودگی ہے جو ویسے تو اب سارا سال ہی رہتی ہے لیکن ان مہینوں میں اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ سورج کی روشنی کو بھی روک لیتی ہے گویا سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا گیا ہو۔ برسات کے بادل جسم و جاں کیلئے فرحت بخش لیکن یہ والے بادل سانس کی بیماریوں سے لے کر آنکھوں اور جلد کیلئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ فضائی آلودگی آجکل اپنی شدت کی بنا پر آنکھوں سے نظر آ رہی ہوتی ہے ورنہ یہ سارے سال کا ہی مسئلہ ہے ۔ لیکن اتنا اہم اور سنگین مسئلہ ہونے کے باوجود جانے کیوں ہماری حکومتیں اور متعلقہ ادارے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ میڈیا بھی سارا سال خاموش رہنے کے بعد ان دو تین مہینوں میں شور مچاتا ہے جس کے نتیجے میں سرکاری اداروں کی جانب سے بیانات جاری ہوتے اور ٹوئیٹر پر ٹرینڈ بنتے ہیں اور اس کے بعد ہم کوئی نیا موضوع تلاش کر لیتے ہیں۔
 فضائی آلودگی ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ’’ ائیر کوالٹی انڈکس‘‘ ہے جو صفر سے 50 تک صحت مند، 51 سے 100 تک درمیانہ، 101 سے 150 تک خطرناک اور شدید غیر صحت مند، اوراس سے زیادہ نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اوسط اعداد و شمار دیکھیں تو لاہورکا ائیر کوالٹی انڈکس 500 ، بہاولپور 175، کراچی 170، پشاور390 ، راولپنڈی 167، اور کوئٹہ 170 تک پہنچتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ برس اسی مہینے کے انہی دنوں میں یہ انڈکس بالترتیب 540، 185،185 ، 375، 185 اور    185 تک گیا تھا۔ یعنی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پچھلے برس تھے اور اس سے پچھلے برس اور اس سے پچھلے برس ۔ گزشتہ ہفتے کے دوران لاہور فضائی آلودگی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر اور گزشتہ تما م برس کی اوسط کے مطابق پاکستان فضائی آلودگی کے حساب سے پوری دنیا میں تیسرے نمبر پر تھا۔ ان مصدقہ اعداد و شمار کے باوجود نہ جانے کیوں ہم بحیثیت قوم اور ہمارے سرکاری ادارے اس کا ادراک نہیں کرتے ۔جب مسئلے کی حقیقت اور اسکی سنجیدگی کا ادراک ہی نہیں تو اسکے حل کیلئے کوئی حقیقی عملی اقدامات کا کیا سوال ؟ لیکن باتوں اور تقریروں کی حد تک ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔ فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے 2005ء میں ’’ پاکستان کلین ائیر ایکشن پلان ‘‘ کا آغاز کیا گیا تھا۔
2017ء میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ’’سموگ کمیشن‘‘ تشکیل دیا گیا جس نے تحقیق اور مشاہدے کے بعد مئی 2018 ء میں اپنی سفارشات پیش کیں کہ کس طرح پاکستان میں سموگ اورآلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی سفارش پرآج تک عمل نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے اپنے ایک پروگرام ’’آر-سموگ‘‘ میں تحقیق کر کے یہ رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں سموگ کی وجوہات میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 43 فیصد، صنعتوں کا 25 فیصد اور زراعت کا 20 فیصد ہے۔ ٹرانسپورٹ کا 43 فیصد حصہ کم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم تمام شہروں میں غیر معیاری ایندھن ، ناقص گاڑیوں اور بسوں کو بغیر ’’ حقیقی معائنے ‘‘ کے مل جانے والے ’’فٹنس سر ٹیفکیٹ‘‘ ا کا خاتمہ کر کے ’’ باعزت پبلک ٹرانسپورٹ‘‘ کو فروغ دیں ۔ صنعتی آلودگی کی بات کریں تو ہمارے کتنے صنعتی یونٹوں اور کوئلے اور تیل سے چلنے والے پاور پلانٹوں میں درحقیقت ’’ ٹریٹمنٹ پلانٹ ‘‘ موجود ہیں جو عالمی معیار کے مطابق ان پلانٹوں کے اخراج سے فضا کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں؟ دیگر عوامل بھی ہیں جن میں اہم ترین درختوں، کھیتوں اور سبزے کا ناپید ہو جانا ہے۔ بڑے شہروں کے ارد گر د کبھی باغات اور کھیت موجود ہوتے تھے جو تازہ ہوا کے ساتھ ساتھ سستی سبزیا ں اور پھل بھی مہیا کرتے تھے لیکن اب وہاں ہائوسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ یہ میں صرف فضائی آلودگی کی بات کر رہا ہوں وگرنہ لاہور، بہاولپور، کراچی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ سے پشاور اور خیبر پختونخواہ سمیت کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہیں ہے جس کی ہوا، پانی اور خوراک آلودگی اور ملاوٹ سے پاک اورصحت مند ہو۔ کیا ہمارے افسران ، سیاستدان اور منصوبہ ساز کبھی ’’عام آدمی‘‘ کو اسکا یہ بنیادی ترین ’’حق ‘‘ یعنی ’’زہر کے بغیرسانس ‘‘ دینے کے بارے میں کوئی عملی اقدامات کریں گے؟ انصاف، صحت ، مساوات اور انسانی حقوق دینے کے بیانات اور تقاریر کرنے والے عملی طور پر ہمارے عوام کو پانی اور ہوا بھی زہر کے بغیر نہیں دے سکتے؟روزانہ بیس سے زیادہ سیگرٹ پینے والے کے پھیپھڑوں کو کم نقصان پہنچتا ہے اس ہوا میں سانس لینے والوں کو زیادہ نقصان بہنچ رہا ہے۔ اس وقت آنکھوں کی حفاظت اور ماسک لگانا کرونا کے دنوں جتنا ہی ضروری ہے۔ موٹر سائیکل سواروں کو چاہیے کہ سامنے سے بند ہیلمٹ اور ہو سکے تو ناک اور منہ کے اوپر نم آلود کپڑا لپیٹ کر رکھیں۔ گھر کے دروازے کھڑکیا ں زیادہ سے زیادہ بند رکھیں اور ہو سکے تو ’’ ائیر پیوریفائیر ‘‘ استعمال کریں۔ شدید ضرورت کے بغیر خود اور خاص طور پر بچوں کو گھر سے باہر نہ نکالیں۔ 

ای پیپر دی نیشن