علامہ منیر احمد یوسفی
آپ کا اِسم شریف ’’عبدالقادر‘‘ کنیت ’’ابو محمد‘‘ اور القابات محی الدین، محبوبِ سبحانی، غوث الثقلین اور غوثِ اعظم وغیرہ ہیں۔ شیخ المحدثین حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒنے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’اخبار الاخیار‘‘ شریف میں آپ کا ذکر اِن القابات سے فرمایا ہے۔ ’’قطب الاقطاب، فرد الاحباب، الغوث الاعظم ، شیخ الطالبین، شیخ الاسلام، محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی ۔
حضرت مولانا عبدالرحمان نورالدین جامی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’’نفخات الانس من حضرات القدس‘‘ میں لکھا ہے:حضرت سیّدنا عبدالقادرجیلانی ثابت النسب سیّد ہیں۔جامع حسب ولقب ہیں۔ والد بزرگوار کی نسبت سے حسنی علوی اور والدہ محترمہ کی نسبت سے جو سیّد عبداﷲ صومعی زاہدکی بیٹی ہیں ،حسینی سیّد ہیں ۔آپ کے والد گرامی کا اِسم گرامی حضرت سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوست ہے ۔ غوث اعظم کی والدہ محترمہ کا نام اُم الخیراُمتہ الجبارحضرت فاطمہ ہے‘ آپ بڑی پاک طینت اور صالحہ خاتون تھیں۔
آپ نجیب الطرفین اور شریف الجانبین ہیں ۔والد گرامی کی طرف سے حضرت سیّدنا علی المرتضی ؓ تک گیارہ سلسلے اور پشتیں بنتی ہیں۔ اِسی طرح والدہ کی طرف سے امیر المومنین حضرت سیّدنا علیؓ تعالیٰ تک گیارہ سلسلے اور پشتیں بنتی ہیں ۔اِس سلسلہ عالیہ کی اِبتداء متواتر صحیح ثابت اور ایسی روشن ہے جیسا آفتاب عالم تاب ہوتا ہے ۔محققین اُمّت کا اِسی پر اتفاق ہے۔ آپ کی کنیت ابو محمد ہے آپ کی کنیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ایک صاحبزادے کا نام محمد تھا ۔
ولادت:
بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل سے ملحق گیلان چھوٹاسا مگر زرخیز صوبہ ہے‘اُس کے ایک قصبہ میںحضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر ۴۷۰ھ بمطابق ۱۰۹۲ئ میں یکم رمضان المبارک میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ کی عمر ساٹھ برس تھی۔ آپ جب پیدا ہوئے تو رمضان شریف میں دن بھر دُودھ نہ پیتے تھے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کو دُودھ نہیں پیتا ۔
بچپنے کا عالم:
آپ بچپن میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگئے۔ آپ کے نانا حضرت سیّد عبداﷲ صومعی زندہ تھے۔ اُنہوں نے آپ کو اپنے کنارِ عاطفت میں لے لیا۔ آپ بچوں کے ساتھ نہیں کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا قصد کرتا تو آواز آتی۔ اے مبارک ہماری طرف آ۔ میں آواز سن کر ڈرتا اور دوڑ کر سیدھا اپنی والدہ کی گود میں آجاتا اوریہ آواز اَب میں اپنی خلوت میں سنتا ہوں۔
آغازِ تعلیم:
یہ تو صحیح طور پر معلوم نہیں کہ آپ کی تعلیم کا آغاز کب ہوا مگر اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ آپ دس برس کی عمر میں اپنے شہر کے مکتب میں پڑھنے جایا کرتے تھے۔ کیونکہ جب آپ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ولی ہیں تو فرمایا کہ میں دس برس کا تھا گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھتا کہ فرشتے میرے ساتھ چلتے رہتے۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے لڑکوں سے کہتے ولی اﷲ کے لئے جگہ دوـ‘‘۔
پیدائشی ولی:
غوثِ اعظم ؒ فرماتے ہیں‘ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس نے ایک فرشتے سے پوچھا یہ لڑکا کون ہے؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اُس فرشتے نے کہا یہ اولیاء اﷲ میں سے ایک ولی ہے یہ بہت بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔حضرت ابو عبداﷲ محمد بن قائد وانی کا بیان ہے کہ میں حضرت شیح سیّد عبدالقادر کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے اَمر کی بنیاد کس چیز پر رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’سچ‘‘ پراور فرمایا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا نہ بچپنے میں نہ جوانی میں۔
بیل کا کلام کرنا اور حجابات کا ہٹنا:
حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ مجھے جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے کھڑا ہو کر عام کسانوں کی طرح ہل چلانے لگا‘ میری حیرانگی کی اِنتہا نہ رہی جب اُس بیل نے مجھ سے کلام کیاکہ تم کاشتکاری کے لئے پیدا نہیں ہوئے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں اِس کا حکم بھی نہیں دیا۔ فرماتے ہیں ‘میں خوف کی حالت میں گھر آیا اور گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے حاجیوں کو میدانِ عرفات میں دیکھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی آنکھوں کے آگے سے تمام حجابات ہٹا دئیے۔ فرماتے ہیں‘ میں اپنی والدہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں بغداد شریف جا کر علماء کرام سے علم‘ مشائخ طریقت سے طریقت کا فیض حاصل کروں۔ والدہ محترمہ کو میںنے دونوں واقعات کے بارے میں عرض کیا فرماتے ہیں اُس وقت میری عمر ۱۸ سال تھی۔
ایک ماں کے لئے ایسے ہونہار‘ اِطاعت شعار اور پیدائشی ولی بیٹے کو اپنے سے جدائی کی اجازت دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر والدہ نے اپنے بیٹے کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بغداد شریف جانے کی اِجازت مرحمت فرمادی اور ساتھ ہی نصیحت فرمائی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور الوداع فرماتے ہوئے فرمایا۔ ’’میں تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حوالے کرتی ہوں شاید میں تمہیں زندگی میں نہ دیکھ سکوں‘‘۔
مجاہدہ و ریاضت:
سرکارغوث اعظم علوم ظاہری حاصل کرنے کے بعدجن دنوں علوم باطنی کے حصول میں عراق کی ویران وادیوں میں عبادت وریاضت اور مجاہدہ نفس کے دشوار گذار مراحل طے فرما رہے تھے۔ شیطان کی فتنہ پردازیاں چراغ سحری کی مانند پھر بھڑکیں۔رفعت و بلندی کی انتہائی منازل تک آپ کی رسائی شیطان سے دیکھی نہ جا سکی اور ایک دن پراگندہ صورت بنائے بدبودار لباس پہنے ہوئے آپ کی خدمت میں آکر کہنے لگا۔ میں ابلیس ہوں میری جماعت کے تمام افراد کو آپ نے عاجز و ناکام کر دیا ہے اپنے سارے ہتھکنڈے استعمال کر چکا۔ آپ کے پائے ثبات میں لغزش تک نہ آئی لہٰذا میں نے ہار مان لی اور اَب آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔
سرکار غوث اعظم نے فرمایا: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِط ظالم میں تو کسی طرح تجھ سے مطمئن نہیں ہو سکتا یہ تیری باتیںسراپا فتنہ ہیں جس میں تو مجھے ملوث کرنا چاہتا ہے۔ ابھی آپ کا جواب ختم بھی نہ ہوا تھا کہ پردئہ غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور اِس شدت کے ساتھ ابلیس کے سر پر پڑا کہ زمین کے اندر دھنستا ہوا غائب ہو گیا۔
ابلیس آگ کا شعلہ لے کر دوبارہ آپ کے قریب آیا‘ آپ نے اِس تیاری کے ساتھ حملہ آور دیکھا تو تعوذ کیا اور وہ چلا گیا لیکن چند ہی لمحات بعد پھر پلٹ کر آیا اور فی الفور آپ کے اوپر حملہ آور ہو گیا۔ معاً ایک سوار نمودار ہوا اور حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ میں ایک تلوار دیدی جسے دیکھ کر ابلیس غائب ہو گیا۔
سہ بارہ ابلیس مکر و فریب کے نئے جال کے ساتھ آیا۔ آپ نے دیکھا کہ آپ سے دور پریشان حال‘ آفت زدہ‘ خائب و خاسر کی سی صورت بنائے بیٹھا ہوا رو رہا ہے۔ آپ کی نظر پڑی تو کہنے لگا اب آپ میری طرف کیا دیکھ رہے ہیں اَب تو میں قطعی آپ سے نا اُمید ہو گیا ہوں۔ حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی نے پھر تعوذ پڑھا اور فرمایا کہ میں تجھ سے کسی حال میں مطمئن نہیں ہوں۔ حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی ص کی یہ ثابت قدمی دیکھ کر ابلیس نے شرک کے بے شمار جال آپ کے سامنے بچھا دئیے لیکن قدرت کو آپ کی حفاظت منظور تھی پورا ایک سال گذر گیا اور آپ اِن میں سے کسی ایک جانب ملتفت نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ اُس کے بچھائے ہوئے تمام جال رائیگاں ہوگئے یہ دیکھا تو ابلیس نے مخلوق کی محبت اور دنیوی رشتوں کے تعلقاتی جال بچھا دئیے۔ مگر فضلِ ربّانی سے آپ آخر کار اِس کٹھن منزل سے بھی بتمام و کمال گذر گئے۔ایک دن ابلیس کہنے لگا’’اے عبدالقادر میں تمہارا خدا ہوں آج سے میں نے تمہارے لئے حرام چیزیں بھی حلال کردیں اور نماز معاف کر دی‘‘۔آپ نے یہ سنتے ہی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کا ورد فرمایا ‘فورا ًوہ روشنی زائل ہو گئی اور اُس کی جگہ پر دھواں پھیل گیا۔ پھر آواز آئی ’’عبدالقادر تم کو تمہارے علم نے بچا لیا ورنہ میں تم جیسے نہ جانے کتنے عابدوں اور زاہدوں کو اس تاریک وادی میں گمراہ کر چکا ہوں۔
آپ نے جواب دیا‘ کمبخت شیطان مجھ کو میرے علم نے نہیں فضلِ ربی نے بچا لیا ہے۔ یہ سن کر شیطان نے ٹھنڈی سانس لی اور یہ کہتا ہوا چل دیا کہ تم پھر بھی بچ گئے۔ اِن خطرناک منازل سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کے بعد خداوند ِ قدوس نے آپ کے اوپر آپ کا باطن ظاہر فرمایا۔
آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لئے مخلوق کی مدد کرتے ،محتاج سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ جانے دیتے تھے۔ اگر کوئی آپ کے جسم پر پہنے ہوئے لباس کا سوال کرتا تو اُتار کر اُسے عطا فرما دیتے ۔ محاصرہ آپ کا خزانہ معرفت تھا۔ آپ اپنی عادات ، صدق اور ذکر و فکر کے اَوصاف سے غوث پاک کے منصب پر فائز ہیں۔ مکاشفہ آپ کی غذا مشاہدہ آپ کے لئے شفاء اور آپ کا ظاہر آداب ِشریعت اور باطن آدابِ حقیقت تھا۔۱۱ربیع الثانی ۵۶۱ھ بوقت شام آپ کی زبان مبارک پر کلمہ طیبہ اور آیت کریمہ جاری ہوئے اور لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ پڑھتے ہوئیآپ کی آواز مبارک مخفی ہوگئی اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔